معمر افراد کی بحالی مراکز اور نتائج

سندھ حکومت نے سال دوہزارسولہ کے دوران ”نیو کراچی ٹاؤن‘‘نامی نیم متوسط علاقے میں پہلے صوبائی ”معمر افراد کے لئے بحالی مرکز“ کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ کئی برس گزرنے کے بعد عمارت تو کھڑی ہوگئی مگر یہ مرکز تاحال فعال نہیں ہو سکا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اُنہیں ”اولڈ ایج ہوم‘‘کی نہیں بلکہ سرکاری ہسپتال کی ضرورت ہے‘ جہاں بزرگوں سمیت سبھی اپنا علاج کروا سکیں۔ جس قطع اراضی پر مذکورہ ”اولڈ ایج ہوم“ تعمیر کیا گیا وہاں کبھی کچے پکے کمروں پر مشتمل دستکاری مرکز ہوا کرتا تھا جہاں لڑکیاں سلائی کڑھائی سمیت دیگر ہنر سیکھتی تھیں اور ایک کمرے پر مشتمل ڈسپنسری بھی تھی‘ جہاں موجود ماہر امراضِ نسواں محلے کی حاملہ خواتین کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھیں اور یہاں بچوں کو پیدائشی ٹیکے بھی لگائے جاتے تھے لیکن حکومت نے ایک متوسط اور نیم متوسط آبادی والے علاقے میں معمر افراد کی بحالی کا مرکز قائم کر دیا حالانکہ متوسط اور نیم متوسط طبقات میں والدین کی دیکھ بھال کا رجحان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نیو کراچی ٹاؤن کی تیرہ یونین کونسلوں کے لئے معمر افراد کا بحالی مرکز تعمیر کرنے کی بجائے زمینی حقائق اور ضروریات کا ادراک کیا جاتا۔مقامی افراد ”اولڈ ایج ہوم‘‘کے تصور ہی پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں‘حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے شعور اُجاگر کرتی۔ بزرگ افراد کے لئے وظیفہ مقرر کر کے اُن کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ”اُولڈ ایج ہوم‘‘تعمیر کیا گیا جو ایک خاص طبقے اور ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں والدین کو ”اولڈ ایج ہوم‘‘بھیج دیا جاتا ہے جہاں اُن کی نگہداشت کی ذمہ داری دوسروں کے سپرد کرنے والے کئی کئی برس تک والدین سے رابطہ نہیں کرتے اور یوں وہ تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہوئے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں خاندانی نظام کمزور تر جبکہ مشرقی ممالک میں مضبوط تر دکھائی دیتا ہے اور اِس ایک خوبی کو برقرار رکھنے کی بجائے عوام کو ایسے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے والدین جیسی بابرکت ذمہ داری کو بوجھ سمجھنے لگیں اور اِن سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر ہم مغربی معاشروں کو دیکھیں تو وہاں خاندانی نظام کی بحالی پر زور دیا جارہا ہے لیکن ہمارے فیصلہ ساز دانستہ یا غیردانستہ طور پر ایک ایسے اقدام کی کامیابی پر وسائل خرچ کر رہے ہیں‘ جو ہماری اقدار اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔  اگر ”اولڈ ایج ہوم‘‘کی بجائے ہسپتال، سکول یا ڈسپنسری بنائی جاتی تو اِس سے زیادہ پیسہ خوردبرد نہیں جا سکتا تھا۔ بنیادی سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ کیا بے گھر بزرگ یا وہ معمر افراد جو اپنے گھروں پر ملنے والی بنیادی توجہ سے محروم ہیں ان کے لئے اولڈ ایج ہوم کا قیام مؤثر ثابت ہوگا؟ دسمبر دوہزاراُنیس میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ”صوبائی حکومت نے ایسے قوانین بنا لئے ہیں جس سے سندھ جنت لگنے لگتا ہے لیکن محض قانون سازی سے کیا ہوگا حکومت عمل کرکے دکھائے‘ معمر شہریوں کی فلاح و بہبود پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی سے بیس اکتوبر دوہزارچودہ کے روز ”سندھ سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ“ نامی قانون کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس کا بنیادی مقصد سندھ کے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت ایک کونسل کے قیام کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس ضمن میں ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے تعاون سے بزرگ شہریوں کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنے والے سماجی ادارے سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن نے اپریل دوہزاراکیس میں سینئر سٹیزن ویلفیئر ایکٹ کی کمیٹی کے رولز آف بزنس کو حتمی شکل دی اور اِسے صوبائی کابینہ میں منظوری کے لئے ارسال کیا۔ مئی دوہزاراکیس میں ”سینئر سٹیزن رولز دوہزاراکیس“ منظور ہوا اور یوں کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ سینئر سٹیزن یا معمر افراد کو تین برس کے لئے کارڈ (آزادی کارڈ) جاری کیا جائے گا۔ معمر افراد کے لئے کارڈ کا اجراء فوری طور پر یقینی بنانے کیلئے نادرا اور محکمہ سماجی بہبود کے نمائندوں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ کونسل کے بنیادی فرائض میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے پالیسیاں مرتب کرنا‘ بزرگ شہریوں کو سینئر سٹیزن کارڈ کی فراہمی‘ بزرگ شہریوں کی جسمانی‘ ذہنی‘ سماجی اور معاشی بہتری کے لئے رہائشی عمارتوں اور گھروں کی تعمیر‘ بزرگ شہریوں کے مسائل کے حل‘ حکومتی ہسپتالوں میں صحت کی مفت خدمات کی فراہمی جیسے امور شامل ہیں تاہم بزرگوں کیلئے ’اولڈ ایج ہومز‘ کے قیام کو ترجیح دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اِن کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رومانہ سعیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)