ترک سعودی تعلقات: نیا دور

 کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے سخت معاشی حالات کے عالمی تعلقات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اِس حوالے سے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا جائزہ لینے سے قبل ترکی کی معیشت کا جائزہ صورتحال کو سمجھنے میں بڑی حد تک مددگار ثابت ہوگا۔ ترکی کی کرنسی لیرا تاریخی سطح پر کمزور ہوئی ہے۔ تجارتی خسارے یعنی ملکی درآمدات اور برآمدات کے فرق میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ماہ (دسمبر دوہزارا کیس کے دوران) ترکی میں مہنگائی کی شرح چھتیس اعشاریہ ایک فیصد تک پہنچ گئی جبکہ سال دوہزاراکیس میں لیرا (ترک کرنسی) کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے مجموعی طور پر چوالیس فیصد کی کمی آئی۔ علاؤہ ازیں سعودی عرب سے برآمدات میں کمی کا براہ راست اثر ترکی کی معیشت پر ہوا۔ خبر رساں اجینسی بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ترک تاجروں نے شکایت کی تھی کہ انہیں سعودی عرب میں غیر سرکاری طور پر بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ دسمبر دوہزاراُنیس میں ترکی کی سعودی عرب کو برآمدات ایک ارب ریال سے کم ہو کر پانچ سو چھ ملین ریال (یعنی نصف) ہو گئی یعنی ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تجارت کے حجم میں پچانوے فیصد کمی آئی۔ ترکی کے ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق سال دو ہزار بیس میں ترکی کی سعودی عرب کو برآمدات میں 78فیصد کمی ہوئی۔ سعودی عرب چین‘ جاپان اور بھارت سے ترکی کے مقابلے اب زیادہ درآمدات کر رہا ہے۔ ترکی میں اگلے سال عام انتخابات ہونے والے ہیں اور اس موقع پر معیشت میں مسلسل گراوٹ ترک قیادت کے لئے پریشانی کی بات ہے۔ ترک صدر طیب اردگان چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ اگر ترکی کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اِس سے دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی شراکت بھی بڑھے گی۔ ترکی سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان مثلاً ڈرون فراہم کر سکتا ہے لیکن مغربی ایشیا میں فی الحال جو کچھ بھی غیر معمولی ہو رہا ہے اس کا براہ راست تعلق مشرق وسطیٰ میں آئی سیاسی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور ترکی اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے آئندہ ماہ سعودی عرب کے دورے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ ترک صدر متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں یعنی ترک قیادت خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں تلخی ختم کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے تاکہ اِس سے تجارتی و دفاعی فوائد حاصل کر سکے۔ اِس پوری صورتحال کا تعلق امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن سے بھی ہے‘ جن کے صدر بننے کے بعد سے مغربی ایشیائی خطے میں کافی ہنگامہ برپا ہے۔ اس خطے کے ممالک اپنی دشمنی ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک سعودی عرب اور جمہوری اسلامی ایران کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ نومبر میں ابوظہبی کے ولی عہد استنبول گئے اور ترک صدر نے سعودی عرب کے دورے کا اعلان کیا ہے۔ اِس صورتحال سے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ خطے میں امریکہ پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی ایشیا اب امریکہ کی حکمت عملی سے باہر ہو چکا ہے۔ جو بائیڈن کی پوری توجہ انڈو پیسیفک خطے میں چین پر ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے جس طرح افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا اور وہاں سے انخلا کیا‘ اس سے یہ پیغام بھی گیا کہ امریکہ کسی کام کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی ہے بغور دیکھا جائے تو مغربی ایشیا میں عجیب طرح سے سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ بائیڈن کی آمد نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ جب ٹرمپ صدر تھے تو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ بائیڈن کی آمد سے مشرق وسطیٰ میں بھی ہلچل ہے۔ بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ انہیں مغربی ایشیا میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’افغانستان کے مسئلے نے مزید الجھن پیدا کر دی ہے اور اس سے مغربی ایشیا میں امریکہ پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ خلیجی ممالک محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں اس علاقے میں اپنی سفارت کاری خود کرنا پڑے گی۔ سعودی عرب خود ایران سے بات کر رہا ہے۔ یو اے ای خود ترکی جا رہا ہے اور اِس طرح ایک نئے سفارتی ماحول کا آغاز ہوا ہے۔ اِس ماحول میں (روس کے صدر) پوتن اور (چین کے صدر) شی جن پنگ کے سامنے بائیڈن کی سمجھداری ناکافی معلوم ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی جو مہم شروع کی تھی وہ اب تھم چکی ہے۔ جو بائیڈن نے کوشش کی لیکن انڈونیشیا نے انکار کر دیا۔ یمن کے حوالے سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ترکی کا نقطہ نظر حکمت عملی کی خود مختاری ہے۔ وہ کسی کے ساتھ مستقل اتحاد نہیں کرنا چاہتا۔ ان کا اصول یہ ہے کہ ترکی کا ایک کردار ہونا چاہئے۔ اب جو رشتے بن رہے ہیں وہ مخصوص مسائل پر مبنی ہیں۔ کوئی اتحاد نہیں‘ کوئی جبر نہیں بلکہ مقابلہ اور تعاون ہے۔ اب وہ نیٹو کو جوابدہ نہیں ہیں۔ ترکی نے امریکہ سے پیٹریٹ میزائل مانگا‘ انہوں نے نہیں دیا تو ترک صدر نے روس سے ایس 400 نامی دفاعی نظام خرید لیا۔ سعودی عرب نے ترک صدر کے ممکنہ دورے کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا لیکن سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ میں ترک صدر کے اعلان کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا ہے اور اِسے سعودی عرب میں بڑی خبر کے طور پر لیا جا رہا ہے۔شاید اب ترکی کی عرب ممالک سے قربتوں کا وقت آ گیا ہے۔ ترکی کی قطر کے ساتھ کئی سطحوں پر شراکت داری ہے۔ یہ شراکت داری سال دوہزارسترہ اور دوہزاراکیس کے درمیان سعودی‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لئے پریشان کن تھی۔ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے درمیان سعودی عرب نے ترک حکومت کے ساتھ بات چیت میں اضافہ کیا۔ ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے اصل حکمران کے طور پر دیکھے جانے والے بن زید النہیان نے گزشتہ سال نومبر میں ترکی کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ حیران کن تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں مستقبل میں امریکی موجودگی سے خوفزدہ ہیں اور اس لئے علاقائی شراکت داری میں اضافے میں مصروف ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ابوولید سعیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)