جنگ: جزوی میدان

دشمن ممالک نے پاکستان کے خلاف روایتی اور غیرروایتی محاذوں پر جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ اِس مسلط جنگ کے ہتھیار اور انداز الگ الگ ہیں کہ اس میں عسکری یا افرادی قوت سے زیادہ دیگر شعبوں کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ماضی کی جنگوں میں چار حصے فوج اور ایک حصہ دیگر عوامل ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ تناسب الٹ ہو چکا ہے اور جنگ کے جزوی میدان بھی بن چکے ہیں۔ کسی ملک کے خلاف جنگ کو کالے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن کالے اور سفید رنگ کے درمیان گرے (grey) رنگ بھی ہوتا ہے اور یہی جنگ کا وہ جزوی میدان ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے دشمن ممالک نے یلغار کر رکھی ہے۔پاکستان کے مخالفین نے کم از کم دس مختلف ’گرے زون آپریشنز‘ شروع کر رکھے ہیں ان میں مالیاتی کاروائیاں‘ ڈیجیٹل آپریشن‘ پاکستان کی ساکھ متاثر کرنے کے آپریشنز‘ غیرمصدقہ معلوماتی (افواہیں) پھیلانے کے آپریشنز‘ نیٹ ورک آپریشنز‘ رائے عامہ کے آپریشنز‘ میڈیا آپریشنز‘ نفسیاتی آپریشنز اور سائبر آپریشنز شامل ہیں۔ پاکستان کے مخالفین ممکنہ طور پر دشمنانہ کاروائیاں کر رہے ہیں اور یقینی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کاروائیوں کو دشمنی کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ جنگ مسلط ہے لیکن پاکستان کی سڑکوں پر حقیقی خون نہیں بہتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے مخالفین پاکستان کا خون بہانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستانی سڑکوں پر بظاہر خون نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے مخالفین ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کے مقابلے میں ’بڑے پیمانے پر خلفشار پھیلانے کے ہتھیار‘ استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی سڑکوں پر خون نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے مخالفین ’تباہ کن کاروائیوں‘ کے مقابلے میں ’انفارمیشن آپریشنز‘ استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی سڑکوں پر کوئی حقیقی خون نہیں لیکن یہ سمجھنے میں کوتاہی نہ کی جائے کیونکہ روایتی انداز سے کہیں گنا زیادہ خطرناک جنگ جاری ہے۔ پاکستان ایک ’غیر متعین میدان جنگ‘ ہے۔ یہ مسلط جنگ ’قواعد سے بالاتر‘ ہے۔ یہ ’باقاعدہ‘ اور ’بے قاعدہ‘ حربوں کا امتزاج ہے۔ یہ جدید دور کے میدان جنگ کی توسیعی شکل ہے۔ یہ فوجی اور غیر فوجی جنگی حربوں کا مربوط استعمال ہے اور یہ جنگ ہفتے کے سات دن چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے جس کا شکار انسانوں کے اعصاب و دماغ ہیں۔ ”گرے زون وارفیئر“ میں کسی قوم کی مخصوص کمزوریوں کو ڈھونڈ کر اُنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے اور اِس مقصد کے لئے ’متعدد آلات (بشمول طریقے)‘ استعمال کئے جاتے ہیں۔ گرے زون وارفیئر ’معاشرتی افعال‘ نشانہ بناتا ہے۔ قومی ہم آہنگی کو نشانہ بناتا ہے جیسا کہ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ مختلف قسم کے اختلافات عام ہیں۔ پاکستان پر مسلط کردہ جنگ کے کم از کم پانچ محاذ ہیں۔ یہ فوجی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ سویلین اور معلومات سے متعلق ہیں۔ ’گرے زون حملوں‘ میں بسا اوقات پراکسی قوتوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ قابل انکار ہیں۔ گرے زون کے حملے ’معاشی جبر‘ کی صورت ملک کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جنگ کے سماجی اور سیاسی دونوں آلات کا تعین کرتے ہیں۔ ’گرے زون‘ کے حربے علم پر مبنی ہوتے ہیں۔ گرے زون کے خطرات ”دائمی اور غیر متوقع“ ہوتے ہیں۔ گرے زون کے حملوں کا مقصد باقاعدہ جنگ کا آغاز کئے بغیر اپنے اہداف کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ گرے زون کی سرگرمی میں ’ڈیجیٹل اثر و رسوخ سے متعلق کاروائیاں‘ بھی شامل ہوتی ہیں جس کے تحت ’حملہ آور‘ شناخت کے فریب سے گزرتا ہے اور قائل کرنے والی تکنیکوں کو استعمال کرتا ہے اس میں انٹرنیٹ کو اپنے ’ٹارگٹ‘ پر ’حملہ‘ کرنے کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ’حملہ آور‘ حقائق اور جعلی دونوں کا فائدہ اٹھاتا ہے جب کہ ’ٹارگٹ‘ اکثر اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ حملے کی زد میں ہے۔ گرے زون کی سرگرمی میں سیاسی کاروائیاں بھی شامل ہیں جہاں ایک ریاست کی طرف سے دوسری ریاست میں سیاست کے ایک یا زیادہ مخصوص پہلوؤں کو متاثر کرنے کے لئے مربوط مہمات تیار کی جاتی ہیں۔ گرے زون وارفیئر‘ کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو نئی مہارتوں اور نئے آلات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو سب سے پہلے جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ قومی قابلیت و اہلیت میں پائی جانے والی خامیوں کمزوریوں کا جائزہ لیا جائے اور پھر اِن کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)