اقتصادی منظرنامہ: منی بجٹ

قرضوں پر منحصر کسی بھی قومی معیشت کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اقتصادی فیصلے خود کرے۔ پاکستان بھی ایک ایسی ہے مشکل اقتصادی دور سے گزر رہا ہے جس میں معیشت کو سہارا دینے یا اِسے رواں دواں رکھنے کے لئے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے قرض لئے جاتے ہیں۔ پاکستان جن مالیاتی اداروں سے قرض لیتا ہے اُن میں سر فہرست بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ آئی ایم ایف جس ملک کو قرض دیتا ہے اس پر بہت سی شرائط بھی عائد کرتا ہے اور ان شرائط کے ذریعے وہ اس کی ملک کی آزادی اور خود مختاری پر اثر انداز ہونے کے علاؤہ معاشی حوالے سے زیادہ تر فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا اور ماضی میں قرضہ دیتے ہوئے کئی ایسی شرائط منوائیں جن سے حکمران اشرافیہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ان شرائط کی وجہ سے مہنگائی میں ہونے والے اضافے نے عوام کو بے حال کردیا۔ اب آئی ایم ایف نے پاکستان کو چھ ارب ڈالرز کا جو قرضہ دینا ہے اس کے لئے اس نے نئی شرائط بھی رکھی ہیں اور حکومت نے ان شرائط کو مان بھی لیا ہے لیکن ابھی تک پارلیمان سے منظوری نہ ہونے کی وجہ سے ان شرائط کا عملی طور پر نفاذ نہیں ہو پایا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے بارہ جنوری کو اپنے ایک اجلاس میں اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ پاکستان نے کس حد تک اس کی شرائط کو نافذ کیا ہے۔ اس جائزہ اجلاس کے بعد پاکستان کو ایک ار ب پانچ کروڑ ڈا لر کی قسط دینے سے متعلق فیصلہ کیا جانا تھا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے درخواست کی کہ جائزہ اجلاس مؤخر کردیا جائے کیونکہ شرائط کے نفاذ کے لئے فنانس (ضمنی) بل یا منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل تاحال پارلیمان سے منظور نہیں ہوئے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی ترجمان ایستھر پیریز نے نجی ٹی وی سے بات چیت میں کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے چھٹے جائزے پر غور پاکستان کی درخواست پر ملتوی کیا گیا۔ امکان ہے کہ اب اجلاس رواں مہینے کی اٹھائیس یا اکتیس کو ہوگا اور حکومت کوشش کررہی ہے کہ اس اجلاس سے پہلے دونوں بلوں کو پارلیمان سے منظور کرا لے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے تیس دسمبر دوہزاراکیس کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے جاری چالیسویں سیشن کے لئے جو اڑتالیس نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا اس کے مطابق منی بجٹ کی منظوری کے حوالے سے اس اجلاس میں بات چیت ہونی تھی تاہم سانحہئ مری کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ منی بجٹ کی منظوری سے متعلق ایک اہم معاملہ یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اس بل کا جائزہ لے کر آئین کی ’شق 73‘ کے مطابق اپنی سفارشات مرتب کررہی ہے۔ قومی اسمبلی ان سفارشات کی پابند نہیں اور وہ ان پر غور کیے بغیر بھی منی بجٹ کی منظوری دے سکتی ہے۔ سینیٹ کسی بھی بل سے متعلق اپنی سفارشات مرتب کرنے کے لئے چودہ دن کا وقت لیتا ہے تاہم چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے چار جنوری کو ارکان سینیٹ سے کہا تھا کہ وہ تین دن کے اندر اس بل سے متعلق سفارشات تیار کریں جس پر ارکان نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اتنی کم مدت میں بل پر غور نہیں کرسکتے۔ قبل ازیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان نے ایک گرما گرم بحث کے دوران نے متفقہ طور پر منی بجٹ کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ اس سے ٹیکسز بہت زیادہ بڑھ جائیں گے اور عوام کیلئے مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔ اگر منی بجٹ پارلیمان سے منظور ہو جاتا ہے تو اس کے ذریعے حکومت کو 343ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہوگی جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا صفر اعشاریہ چھ فیصد بنتی ہے۔ منی بجٹ کے ذریعے حکومت ایم آئی ایف کے کہنے پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی چھوٹ ختم کررہی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ منی بجٹ کے تحت جو جی ایس ٹی نافذ کیا جارہا ہے وہ قابلِ واپسی ہوگا اور کاروباری حضرات سات دن کے اندر اس کی واپسی کے لئے کلیم داخل کرسکتے ہیں لیکن جی ایس ٹی کی رقم جب کاروباری حضرات کو واپس مل جائے گی تو ان کی جیبوں سے نکل کر وہ عوام تک کیسے پہنچے گی؟  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ظفیر ورائچ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)