سانحہ مری نے گویا کہ پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مری جانے والے بائیس سے زیادہ سیاح مری جانے والی برفیلی سڑکوں پر ٹھنڈ سے جاں بحق ہوئے۔ کئی امدادی اداروں نے ریلیف اور ریسکیو سرگرمیاں تو شروع کیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور سیاح اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے تھے! اس اندوہناک واقعے کی وجوہات تلاش کرنے کے لئے انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے معروضی اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں۔ مری اور اس کے اطراف کا ماحول بہت نازک ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسم سے اس ماحولیات پر ویسے ہی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مری کی بلندی‘ خنک موسم‘ دلفریب نظارے اور یہاں تک آسان رسائی اسے سیاحوں کیلئے غیرمعمولی کشش کا باعث بنا دیتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں یہاں کی برف باری کو دیکھنا یادگار تجربہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے سیاح یہاں امڈ آتے ہیں تاہم محدود داخلی اور خارجی راستوں والے کسی بھی مقام کے لئے زیادہ سیاحوں کا آنا ایک مسئلہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مری کی جانب تقریباً ایک لاکھ گاڑیاں جارہی تھیں جبکہ وہاں اتنی گاڑیوں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ برف سے ڈھکی سڑکوں کو فعال رکھنے کے لئے بھی کچھ ”ایس او پیز“ تیار کی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی صورتحال کے لئے ”ایس او پیز“ موجود تو تھیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا لہٰذا موجودہ صورتحال اور رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے ان ”ایس او پیز“ پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پارکنگ کی جگہوں کی دستیابی اور ٹریفک جام سے بچنے کے لئے مری میں نجی گاڑیوں کا داخلہ بند کردینا چاہئے۔ متبادل کے طور پر ہر طرح کے موسمی حالات اور برفانی طوفان جیسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ضروری سامان سے لیس مضبوط وینز اور کوسٹر چلانی چاہئیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ برف میں پھنسنے کے خطرے کے بغیر مری کی سیر کرسکیں گے۔ اس کے علاؤہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مختصر فاصلوں پر ایمرجنسی رسپانس سینٹر بنانے چاہئیں۔ سیاحتی ادارے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لئے گشت کا نظام بھی مرتب کرسکتے ہیں۔ سیاحوں کے لئے ٹوررازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ تیار کی جانی چاہئے۔ سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرنا چاہئے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا‘ متوقع قیام کی مدت اور دیگر ضروری تفصیلات حاصل کرسکے۔ اس قسم کا سانحہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہوسکتا ہے۔ حکومتی محکموں کو چاہئے کہ ایسے تمام مقامات پر نظر رکھی جائے جہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ایسے مقامات میں سیاحتی مقامات اور مستقل بازار اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ ایسے حادثات سے بھری پڑی ہے جو حکام کی عدم توجہی کی بنا پر پیش آتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔۔ شمالی علاقہ جات کی سڑکوں پر ٹریفک جام اور حادثات اب عام ہوچکے ہیں۔ جن علاقوں میں اوسط سے زیادہ لوگ جاتے ہیں وہاں کیرئنگ کیپیسیٹی کے تصور کو لاگو کرنا چاہئے۔ یہ ایک بنیادی تصور ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ایک محدود علاقے میں انسانوں‘ جانوروں اور نباتات کے برقرار رہنے کے لئے کتنے وسائل درکار ہیں۔ اس کا استعمال ماحولیاتی اثاثوں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے نازک ماحولیات کو ہونے والے نقصان کی جانچ کیلئے بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سی پیک کے ذریعے طے شدہ مال بردار گاڑیاں گلگت بلتستان سے گزریں گی تو اس سے ماحولیات کو نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کا بدلتا ہوا طرزِ زندگی بھی سیاحتی مقامات پر دباؤ میں اضافہ کررہا ہے۔ اگر صوبائی حکومتیں مری جیسے سانحے سے بچنا چاہتی ہیں تو انہیں سیاحتی سرگرمیوں کا سائنسی بنیاد پر انتظام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سیاحوں کا بہتر انتظام کرنا‘ نجی گاڑیوں کو محدود کرنا‘ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو ریگولیٹ کرنا‘ موسمی ایڈوائزری پر بروقت ردِعمل دینا‘ ایک قابلِ اعتماد مواصلاتی نظام وضع کرنا‘ ہنگامی ردِعمل میں بہتری لانا اور سیاحوں کی آگہی کے لئے وقتاً فوقتاً پروگرامات ترتیب دیناضروری ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام