آفات کا دور

لاہور ایک مرتبہ پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے تو انکشاف پر لاہور کے باسیوں کو حیرت نہیں ہوئی اور نہ ہی مقامی لوگوں نے اپنے معمولات تبدیل کئے۔ ماحولیاتی فضائی آلودگی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن  کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ بچے سکول نہیں جاسکتے یا پھر شہر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازوں کی آمد و رفت ممکن نہیں ہے۔ کوئی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تھا کہ  ماحولیاتی آلودگی سنگین صورت اختیار کر گئی ہے‘ وہ ہماری توجہ کی متقاضی ہے اور ہماری عادتوں اور طرزِ عمل میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ گزشتہ ہفتے جب مری میں برف باری کی پیش گوئی کی گئی تو شہر سے کئی لوگوں نے اپنی سموگ زدہ زندگی سے دور ”مری“ کا رخ کیا۔ مری جانے والی سڑک پر ہزاروں افراد شدید برف باری میں اپنی گاڑیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان میں ہزاروں افراد میں سے خواتین اور بچوں سمیت بیس سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دونوں واقعات اور حالات ویسے تو ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ سمندروں کے درجہ حرارت بڑھنے کے سبب تقریباً ہر سال کراچی میں سیلاب کا باعث بننے والی بارشیں ہوں یا پھر ماحول میں جمع ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ جس نے موسموں کی ترتیب کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی نظام آلودگی کا شکار ہورہا ہے اور یہاں رہنے والے اَسی کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہوں گے۔ سال دوہزارتیس تک اس خطے میں موحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے معاشی نقصانات سالانہ ایک سو ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ مزید خطرے کی بات یہ ہے کہ سال دوہزارپچاس تک جنوبی ایشیا کے چار کروڑ افراد ماحولیاتی پناہ گرین بن جائیں گے اور اس تلاش میں در بدر پھریں گے کہ کوئی ملک انہیں پناہ دے دے۔ حال ہی میں ایک مضمون میں ڈیریئن گیپ عبور کرنے والے مہاجرین کے حوالے سے معلومات شائع کی گئی ہیں۔ ڈیریئن گیپ پاناما اور کولمبیا کی سرحد پر واقع ایک گھنا جنگل ہے۔ ان مہاجرین میں بنگلہ دیشی‘ پاکستانی اور افغانی لوگوں کے گروہ بھی شامل تھے۔ ان کی روایتی کھیتی باڑی ختم ہونے کے بعد ان کے گھر والوں نے کسی طرح رقم جمع کرکے ایک ایسے شخص کو ادائیگی کی جس نے انہیں کسی جگہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ معلوم نہیں وہ کیا جگہ تھی بہرحال وہ وسط امریکہ کے راستے امریکہ پہنچنا چاہتے تھے لیکن ناکام رہے۔ سانحہ مری جیسے واقعات فوری طور پر غم و غصے کو ہوا دیتے ہیں۔ لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ اس پیچیدہ واقعے کا ذمہ دار کون ہے کہ جس میں مقامی اور قومی ایمرجنسی اداروں کی ناکامی شامل ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس ایمرجنسی فریم ورک کو کبھی ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے تیار ہی نہیں کیا گیا تھا۔ موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا۔ وہ سیلاب جو کبھی دس سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔ اب موسمِ سرما میں کئی مرتبہ ریکارڈ برفباری ہوگی۔ اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے غریب ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے زیادہ سے زیادہ قرضہ لینا پڑے گاتاہم اس مقصد کے لئے قرض لینے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان موسمی آفات کی تعداد میں اب اضافہ ہوتا جائے گا اور ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہنگامی خدمات‘ قدرتی آفات کے انتظام اور ان سے بچاؤ اور اس حوالے سے عوامی آگہی ایسی چیزیں ہیں جن میں سرمایہ کاری کرنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اس حوالے سے کم سے کم سرمایہ کاری کریں گی کیونکہ اسے سیاستدان کسی بھی طرح اپنی کامیابی قرار نہیں دے سکتے۔ مثال کے طور پر بھارتی سیاستدانوں نے آلودگی کم کرنے کے بل پر دستخط سے انکار کردیا جنوبی ایشیا کے لئے صرف موسمی حالات ہی مشکلات نہیں کھڑے کریں گے بلکہ دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے۔ جس وقت تک حکومت (چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو) کو ہوش آئے گا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ مری میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد ہمیں اب اس بات کا احساس کرلینا چاہے کہ ہمارا نظامِ حکومت اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مری میں یہ برفانی طوفان معمول سے ہٹ کر نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت جن اقدامت پر غور کررہا ہے تیزی سے بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات کا دباؤ اس سے کہیں زیادہ اقدامات کا متقاضی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ موسمی تبدیلی ایک دو یا دس بیس تباہ کن واقعات کا نام نہیں بلکہ یہ موجودہ نظام پر ان واقعات کے مجموعی دباؤ کا نام ہے۔ بدانتظامی اور ناقص شہری انتظام کے ساتھ مل کر اس کے نتائج مہلک اور تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر افراد موسمی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتے۔ ماحولیاتی تباہی کے بارے میں خدشات کے ساتھ انفرادی واقعات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان تعلق کو اجتماعی شعور کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافیعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)