ترکیبی حملہ

قازقسان میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور مہنگائی دو ہندسوں یعنی اِس کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔ اِسی طرح بیروزگاری کی شرح بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ قومی معیشت پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے عوام چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ اِن سبھی عوام دشمن محرکات و حالات کے درمیان ’عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)‘ سے قرض لینے کے لئے اُن کی شرائط (جنہیں آئی ایم ایف اصلاحاتی پروگرام کہا جاتا ہے) تسلیم کرنی پڑتی ہیں اُور ’آئی ایم ایف‘ چاہتا ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ سود کی شرح بڑھائی جائے اُور توانائی (بجلی و گیس اُور پیٹرولیم مصنوعات) پر حکومت کی جانب سے دی جانے والی رعائت (سبسڈی) ختم کی جائے۔ قازقستان روس کے ساتھ 7600 کلومیٹر طویل سرحد رکھتا ہے اورقازقستان کی چوتھائی آبادی نسلی و لسانی طور پر روسی ہے۔ روس کے تمام خلائی مشن قازقستان میں موجود سہولت (Baikonur Cosmodrome) سے بھیجے جاتے ہیں۔ قازقستان قدرتی نعمتوں سے بھی مالا مال ہے۔ دنیا کے کل یورنیم (Uranium) کا 40 فیصد یہیں سے حاصل ہوتا ہے جس کا استعمال روس اپنے جوہری پروگرام میں کرتا ہے اور روس کا جوہری پروگرام قازقستان پر انحصار کرتا ہے۔ اِسی طرح روس کی دفاعی صنعت بھی قازقستان ہی میں اپنے تجرباتی مراکز رکھتی ہے جبکہ دنیا میں بٹ کوائن (Bitcoin) نامی کرپٹوکرنسی کے 18فیصد حصص بھی قازقستان کے پاس ہیں۔ اِنہی سبھی تناظر سے دیکھا جائے تو روس کے لئے قازقستان کی خاص اہمیت ہے۔امریکہ کی ایک غیرمنافع بخش تنظیم (NGO) ”نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی (NED)“ جس کا صدر دفتر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہے سال 1983ء میں قائم ہوئی تھی اور یہ تنظیم دنیا کے دیگر ممالک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لئے کام کرتی ہے۔ این اِی ڈی نامی اِس مذکورہ تنظیم کو امریکہ کی کانگریس مالی امداد دیتی ہے جسے یہ ’این جی او‘ دنیا بھر میں خرچ کرتا ہے اور صرف جمہوریت کے استحکام کیلئے نہیں بلکہ امریکی مفادات حاصل کرنے کیلئے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ قازقستان میں 16 ہزار غیرسرکاری ادارے (این جی اُوز) ہیں اور اِن سبھی اداروں کو مغربی ممالک کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔سال 2021ء میں ’این ای ڈی‘ نے قازقستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے 50 ہزار ڈالر خرچ کئے۔ اِس خرچ میں 29ہزار200 ڈالر قازقستان کے عوام کو اُن کے آئینی حقوق جاننے کی مہمات پر خرچ کئے گئے۔ 65 ہزار ڈالر قازقستان کے نوجوانوں پر خرچ کئے گئے۔ 37 ہزار 250 ڈالر انسانی حقوق کے تحفظ پر خرچ کئے گئے اور 56 ہزار ڈالر ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر خرچ کئے گئے۔ اِسی طرح 69ہزار 920 ڈالر قازقستان میں بنیادی آزادی اور 60 ہزار ڈالر عوام کو اپنے حقوق کے لئے احتجاج کے طورطریقوں سے آگاہ کرنے پر خرچ کئے گئے۔ 33 ہزار 700 ڈالر منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد‘ 49 ہزار 600 ڈالر عدالتی نظام‘ 33 ہزار قرضوں اور اِس بارے عوامی شعور‘ 91 ہزار 283 ڈالر ذرائع ابلاغ کی آزادی اور 58 ہزار 900 ڈالر انٹرنیٹ کی آزادی برقرار رکھنے کے منصوبوں یا مہمات پر خرچ کئے گئے۔جنوری 2022ء میں قازقستان کی حکومت کے چند اہم فیصلے کئے جن میں ایندھن پر دی جانے والی رعایت واپس لے لی گئی جس سے مائع گیس (LPG) ایندھن کی قیمت دگنی ہو چکی ہے۔ یہی مائع گیس قازقستان میں گاڑیوں کا ایندھن ہے۔ اِس حکومت فیصلے کے خلاف 2 جنوری کے روز عوام سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہیں احتجاج کی راہ دکھانے اور احتجاج کو منظم کرنے کے لئے وہ غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) پیش پیش تھیں جنہیں امریکی ادارے ’این اِی ڈی‘ کی جانب سے مختلف مہمات کیلئے مالی امداد دی جاتی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو امریکہ ایک طرف ’آئی ایم ایف‘ کے ذریعے قازقستان میں عوام کو دی جانے والی رعایت (سبسڈی) کم یا ختم کروا رہا ہے اور دوسری طرف یہی امریکہ وہاں کے عوام کو اُکسا رہا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے سبسڈی ختم کئے جانے کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں۔ 2 جنوری کو احتجاجی مظاہرین کے ہاتھ اسلحے کا ایک بڑا ذخیرہ آ گیا جس میں خودکار ہتھیار بھی تھے اور اِن ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے الماٹی (Almaty) ائرپورٹ سمیت کئی حکومتی عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ بینکوں اور اُن کی اے ٹی ایم (ATM) مشینوں کو لوٹ لیا گیا اور حکومتی دفاتر اور محکموں کو کام کرنے سے روک دیا۔ اِس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں بشمول فوجیوں پر حملے بھی کئے گئے۔ 5 جنوری کے روز حکومت نے ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ 6 جنوری کے روز 3 ہزار روسی فوجیوں قازقستان بھیجا گیا یہ عمل ممالک کے درمیان ایک دفاعی معاہدے کے تحت کیا گیا۔ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی کاروائی میں چند سو افراد ہلاک جبکہ آٹھ ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ 400 گاڑیاں تباہ ہوئی۔ 7 جنوری کو حکومت نے فوج کو حکم دیا کہ احتجاج کرنے والوں کو دیکھتے ہیں گولی مار دی جائے اور سات جنوری ہی کے روز ایندھن (ایل پی جی) کی پرانی قیمتیں بھی بحال کر دی گئیں۔قازقستان کی اِس کہانی  میں  اُن ممالک کے لئے اسباق پوشیدہ ہیں جو ’آئی ایم ایف‘ اور غیرملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں اور اِس حکمت عملی پر قومی سلامتی کے تقاضوں کے تناظر میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)