اقلیت (کم تعداد میں افراد) کے ہاتھ آمدنی‘ دولت اور سیاسی طاقت کا انتہائی ارتکاز انسانی معاشروں میں تعمیر کی بجائے بگاڑ کا باعث بن رہا ہے اور اِنہیں اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے‘ جسے ماہرین اقتصادیات ٹوٹ پھوٹ کہتے ہیں کیونکہ ایشیائی ممالک میں اکثریت کے لئے آمدنی کے مواقع کم ہو رہے ہیں جس کی ایک وجہ ماحولیاتی منفی اثرات بھی ہیں۔ کرہ ارض کا درجہئ حرارت گرم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے زراعت اور زرعی پیداوار پر انحصار کرنے والی معیشت سے وابستہ محنت کش غربت کی ڈھلوان پر پھسل رہے ہیں جس کی آخری منزل مایوسی ہے۔ جب تک عالمی اقتصادی نظام‘ کھپت کے انداز‘ طاقت و سرمائے کی تقسیم اور مراعات میں بنیادی تبدیلی نہیں لائی جاتی ہے یہ نہ رکنے والی تفاوتیں ماحولیاتی مسائل کے ساتھ مزید بدامنی‘ تشدد‘ اموات اور تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔ عدم مساوات قاتل ہے۔ کورونا وبا (دسمبر 2019ء سے) دنیا بھر میں پہلے ہی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو اِس وبائی مرض نے دو انتہاؤں کو بے نقاب کیا اور شکوک و شبہات دور کئے ہیں کہ امیر اشرافیہ نے دنیا کو منصفانہ نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہ وسائل پر قبضہ چاہتے ہیں اور یہ بات آکسفیم انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دس امیر ترین افراد نے وبائی امراض کے دوران اپنی دولت میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ کیا جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگ غریب ہوئے۔ ارب پتیوں کی دولت پانچ کھرب تک پہنچ گئی ہے‘ جو اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ درحقیقت یہ حکومتوں کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہونا چاہئے کہ دنیا کے دس امیر ترین افراد نے اپنی دولت دوگنی سے بھی زیادہ کر لی ہے جبکہ ننانوے فیصد لوگوں کی آمدنی کورونا وبا کی وجہ سے خراب ہوئی۔ دنیا میں غربت کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اندازے کے مطابق اگر یہ دس امیر ترین افراد آج اپنی دولت کا ننانوے فیصد حصہ تقسیم کر دیں تو تب بھی یہ کرہ ارض کے تمام لوگوں یعنی ننانوے فیصد سے زیادہ امیر رہیں گے۔ آکسفیم تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ عدم مساوات ہر چار سیکنڈ میں کم از کم ایک شخص کی موت کا باعث بن رہی ہے۔ آمدنی کی عدم مساوات اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ آیا آپ عمر بڑھنے سے مریں گے یا کورونا وبا سے مریں گے۔ اب تک لاکھوں لوگ وبا سے مر چکے ہیں جن کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں اگر انہیں ویکسین تک رسائی حاصل ہوتی۔ ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں تقریباً ساٹھ فیصد خواتین کو وبائی امراض کی وجہ سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ ایشیا پیسیفک میں خواتین صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں میں ستر فیصد سے زیادہ اور نرسوں کی اَسی فیصد پر خواتین مشتمل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میں صحت کی خدمات میں خلل کی وجہ سے سال دوہزاربیس میں دولاکھ اٹھائیس ہزار اضافی بچوں کی اموات اور تقریباً گیارہ ہزار اموات زچگی کے دوران ہوئیں۔ وبائی امراض کے دوران ایشیائی ارب پتیوں کی تعداد اور ان کی دولت (اثاثوں) میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ارب پتیوں کی تعداد مارچ دوہزاربیس میں آٹھ سو تین سے بڑھ کر نومبر دوہزاراکیس میں ایک ہزار ستاسی ہو گئی‘ جس میں دوسو چوراسی نئے ارب پتی شامل ہیں۔ جبکہ ایشیائی خطے کے غریب ترین لوگ اپنے پیاروں اور ملازمتوں کو دیگر ممالک کی نسبت زیادہ تیزی سے کھو رہے ہیں۔ ہر دو دن بعد ایک نیا ارب پتی ابھر رہا تھا۔ ان اشرافیہ نے مجموعی طور پر ایک اعشاریہ چھیالیس کھرب ڈالر کمائے ہیں۔ جبکہ یہ چھوٹے امیر اشرافیہ اپنی خوش قسمتی پر پھولے نہیں سما رہے! سال دوہزاربیس میں 14 کروڑ 70 لاکھ (174ملین) ایشیائی باشندے کل وقتی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اگر ان ارب پتیوں کی کمائی گئی اضافی رقم کو یکساں طور پر تقسیم کیا جائے تو ایشیا میں ہر وہ شخص جو اپنی ملازمت کھو چکا ہے اُسے دس ہزار امریکی ڈالر ملیں گے۔ ایشیا کے امیر ترین لوگوں میں سے صرف چند نے وبائی بحران سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مارچ دوہزاراکیس تک‘ بیس نئے ایشیائی وبائی ارب پتی تھے‘ جن کی خوش قسمتی کورونا وبا کے علاج معالجے سے جڑی ادویات یا آلات‘ دواسازی یا طب کے شعبے میں خدمات کی فراہمی سے وابستہ تھیں۔ نومبر دوہزاراکیس میں‘ ایشیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگوں کے پاس ایشیائی خطے کے غریب ترین نوے فیصد لوگوں سے زیادہ دولت تھی۔ ایک اندازے کے مطابق فی الوقت 14 کروڑ 80 لاکھ ایشیائی باشندوں کو ملازمتوں میں کمی‘ روزگار کی کمی‘ آمدنی میں کمی‘ صحت کے اضافی اخراجات اور خاص طور پر خواتین کی دیکھ بھال جیسی ذمہ داریوں میں اضافے کی وجہ سے غربت کا سامنا ہے۔ الگ موضوع ہے کہ کس طرح اِس وبائی مرض نے نوجوان سیکھنے والوں کے مستقبل کے مواقع کو متاثر کیا ہے۔ سال 2020ء میں‘ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اندازہ لگایا تھا کہ کورونا بحران سے ایشیا میں 1 کروڑ 45 لاکھ نوجوان ہمیشہ کے لئے تعلیمی اداروں (سکول‘ کالج اور جامعات) کو چھوڑ دیں گے یعنی کورونا وبا نے درس و تدریس کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ سب کے لئے مفت معیاری تعلیم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اِس کے بغیر‘ کم آمدنی یا غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں اور پسماندہ گروہوں کو اپنی خوشحالی اور معیشت و معاشرت بحال کرنے کے مواقع نہیں مل پائیں گے۔اگر ہم کورونا وبا کے پاکستان پر منفی اثرات کی بات کریں تو پاکستان کی دس فیصد امیر ترین آبادی کی آمدنی چالیس فیصد غریب ترین آبادی کی کل آمدنی سے تیس فیصد زیادہ ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد آبادی بیس فیصد سے زائد کھیتی باڑی کی مالک ہے‘ جس کی وجہ سے زرعی زمین بہت کم خاندانوں کی ملکیت ہے۔ آمدنی اور زمین کے علاوہ دولت (اثاثوں) کے حوالے سے بھی بہت بڑا فرق دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے قریب پانچ لاکھ امیر ترین گھرانوں کے پاس رہائشی جائیداد کا تقریباً سولہ فیصد ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے غربت سے متعلق تخمینہ پیش کیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وبا نے 2019-20ء کے دوران 2 کروڑ 10 لاکھ پاکستانیوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے اِن میں بشمول ایک کروڑ شہری باشندے جو ملازمتوں میں کمی‘ آمدنی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے غریب ہوئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2020-21ء میں پاکستان کی ساڑھے بتیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے میں حکومت ترقی پسند پالیسیاں متعارف کرا سکتی ہیں جیسا کہ امیروں پر ٹیکس لگایا جائے۔ نگہداشت سے متعلق خدمات سمیت عوامی خدمات میں سرمایہ کاری کی جائے۔ اجرت کے ساتھ زیادہ معقول ملازمتیں پیدا کی جائیں۔ خواتین اور لڑکیوں کے لئے مساوی ملازمتی و انسانی حقوق حقوق اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع یقینی بنائیں جائیں اور ماحولیاتی و موسمیاتی اثرات سے کم آمدنی والوں کو بچایا جائے۔ حکمران اگر متوجہ ہوں تو عرض ہے کہ یہ موقع اور ضرورت گرین ٹیکنالوجیز اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کی ہے جس کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے۔ حکومتوں کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کریں اور ایسے طریقوں کو اپنائیں جو زیادہ جامع‘ منصفانہ اور محنت کش‘ مزدوروں اور ملازمین کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مصطفی تالپور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام