قومی فلاحی حکمت عملی

’احساس پروگرام‘ کے تحت گھر گھر جا کر عوامی جائزہ (سروے) مکمل کر لیا گیا ہے اور اِس جائزے کی مدد سے وفاقی حکومت اِس قابل ہوئی ہے کہ وہ ’اِحساس سوشواِکنامک رجسٹری‘ یعنی کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں کی درست معلومات کی بنیاد پر نشاندہی کرے اور ایسے کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھے۔ مذکورہ قومی جائزے میں 3 کروڑ 44 لاکھ 10 ہزار (34.41 ملین) خاندانوں کے مختلف حوالوں سے کوائف اکٹھا کئے گئے ہیں تاکہ ان کی مالی حیثیت اور غربت کی سطح معلوم کی جا سکے یہ عمل چار لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب ایشیائی ممالک میں پہلا ایسا جائزہ ہے جو قومی مردم شماری کی طرح گھر گھر جا کر مکمل کیا گیا ہے اور یہ قطعی آسان نہیں تھا کیونکہ اِس کے لئے تربیت یافتہ افرادی و تکنیکی وسائل کی ضرورت اور صوبائی حکومتوں کا غیرمشروط تعاون درکار تھا۔ ماضی میں اِس طرح کی‘ کی جانے والی کوششوں میں کاغذ پر کوائف درج کئے جاتے تھے اور یہی وجہ رہتی کہ ان کے نتائج یا حاصل مشکوک رہتے لیکن احساس سروے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسے پیمانے بھی مقرر کئے گئے جن کی بدولت دروغ گوئی نہ کی جا سکے اور ایسی کسی کوشش کو خودکار نظام کے ذریعے بھانپ لیا جائے۔ اِس جائزے کے 6 سطحی نظام وضع کیا گیا اور ہر مرحلہ خودکار طریقے سے دوسرے سے مربوط ہونے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ ہر گھر کی ڈیجیٹل شناخت یعنی اس کے مقام اور حیثیت کا بھی تعین کیا گیا۔ ماضی میں اِس طرح کا عمل کسی ایک گھر یا حجرے میں بیٹھ کر مکمل کر لیا جاتا تھا اور اِس میں منظورنظر افراد کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن اِس مرتبہ جائزہ کاروں کو ہر ایک گھر دستک دینا پڑی کیونکہ ڈیجیٹل نظام کے تحت ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جا رہی تھی۔ اِسی طرح جس علاقے کا سروے مکمل ہوتا وہاں کے کوائف کی کسی غیرحکومتی ادارے (تھرڈ پارٹی) سے تصدیق کروائی گئی اور یوں ہر خاندان کے کوائف بمعہ ان کے مقامات و علاقے کی نشاندہی ڈیجیٹل اسلوب میں محفوظ و تیار کر لی گئی۔ اِحساس نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ اہم ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے وفاقی حکومت اِس قابل ہوئی کہ وہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اقتصادی مدد کر سکے اور یہ اِس لئے بھی ضروری تھا تاکہ غربت کی شرح بڑھنے اور پھیلنے سے روکنے کے لئے ان خاص طبقات کی اقتصادی مدد ضروری ہے جن کی درست نشاندہی قبل ازیں موجود نہیں تھی۔ اِسی جائزے کی بنیاد پر احساس راشن رعایت کا اجرأ کیا گیا ہے۔ ’اِحساس نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ اہم ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جائزے سے حاصل ہونے والے کوائف کی جانچ پڑتال کا عمل جاری رکھا جائے گا اور اِس میں شامل ہونے کے امکان کو بھی قائم رکھا گیا ہے یعنی اگر کسی خاندان کا سربراہ یہ سمجھے کہ اس کے بارے میں کوائف درست نہیں یا درج ہونے سے رہ گئے ہیں تو وہ اپنے کوائف کا اندراج آن لائن خود بھی کر سکتا ہے۔ علاؤہ ازیں اِسی جائزے سے حاصل ہونے والے کوائف کی بنیاد پر کسی ہنگامی حالت یا آفت کے موقع پر مستحق خاندانوں تک حکومتی امداد کی رسائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔’اِحساس نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ اہم ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسی استعداد حاصل کر لی گئی ہے جس سے قومی سطح پر حاصل ہونے والے بڑے کوائف (ڈیٹا) کو ایک ہی جگہ رکھ کر اُس سے مطلوبہ نتائج و تحقیق حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اِن کوائف کا حکومتی اداروں سے مفت تبادلہ مربوط کرنے کے مراحل بھی جلد مکمل کر لئے جائیں گے جبکہ احساس راشن رعائت پروگرام جیسے مقصد کے لئے پہلے ہی ’نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ سے فائدہ اُٹھایا جا چکا ہے۔قبل ازیں سال 2010ء میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے تحت جمع کردہ کوائف (ڈیٹا) سے استفادہ ترک کر دیا گیا  کیونکہ اُس کی ازسرنو جانچ اُور تازہ کوائف جمع کرنے پر غیرمعمولی لاگت کا تخمینہ سامنے آیا تھا۔ ’اِحساس نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اِس میں وقت کے ساتھ ردوبدل کرنے کو بھی حکمت عملی کا جز بنایا گیا ہے جس کی بدولت یہ جائزہ وقت کے ساتھ زیادہ جامع ہوتا چلا جائے گا۔ یہ طرزعمل شفاف بھی ہے کہ اِس میں قومی شناختی کارڈ (CNIC) کے ذریعے کسی خاندان کے ہر فرد کی انفرادی حیثیت اُور اُس خاندان کو ملنے والی اقتصادی امداد کے بارے تمام تر معلومات مرتب کی جائیں گی اُور اِنہیں کبھی بھی دیکھا جا سکے گا۔ ماضی میں اِس طرح کی شفافیت قائم کرنے کے لئے خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی تھی اُور نہ ہی اِس بات کا دھیان رکھا گیا تھا کہ کسی ایک خاندان کے ایک سے زیادہ افراد اقتصادی امداد حاصل نہ کریں اُور یہی وجہ رہی کہ کئی مستحق محروم رہ گئے تو کئی خاندانوں کے افراد کا ایک سے زیادہ مرتبہ اندارج ہونے کی وجہ سے اُنہیں اپنے حق سے زیادہ امداد فراہم کی جاتی رہی۔ اِسی طرح کسی ایک حکومتی ادارے یا صوبائی حکومت سے امداد حاصل کرنے والوں کی بھی درست نشاندہی ممکن بنا دی گئی ہے جس کی وجہ سے ایک وقت میں کوئی ایک خاندان کسی ایک ہی حکومتی ذریعے سے امداد حاصل کر سکے گا۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں حکومتی وسائل کی بچت ہوگی وہیں مستحق خاندانوں کی درست نشاندہی اُور بلاامتیاز اقتصادی امداد کی فراہمی بھی ممکن بنا دی گئی ہے۔ ’اِحساس نیشنل سوشواکنامک رجسٹری‘ کے ذریعے دستیاب اعدادوشمار‘ کوائف اُور معلومات (ڈیٹا) کی بنیاد پر معاشرے کے غریب ترین طبقوں (حقیقی مستحقین) تک اقتصادی امداد جیسے فوائد پہنچانا اُور مستقبل میں اُن کی ضروریات کا تعین نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ احساس پروگرام نامی جامع حکمت عملی کے تحت وفاقی اُور صوبائی حکومتیں عوام کی بہبود کے مزید منصوبے بھی باآسانی شروع کر سکیں گی کیونکہ اِن کے پاس مستحق افراد کے کوائف اُور دیگر ضروری و ضمنی معلومات ہمہ وقت دستیاب ہیں جن سے وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً سماجی تحفظ اور فلاحی و بہبود کے جاری یا نئے اقدامات و تصورات کو عملی جامہ پہنانے میں مدد اُور مستحقین کی سماجی فلاح و بہبود کے عمل کو شفافیت کے ساتھ تقویت بھی ملے گی۔ (مضمون نگار وزیراعظم کی معاون ِخصوصی برائے انسداد غربت اور سماجی تحفظ ہیں‘ جن سے بذریعہ ٹوئیٹر @SaniaNishtar رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر:  ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)