قومی سلامتی پالیسی

پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے پہلی قومی سلامتی پالیسی ایک بہت ہی اہم پیش رفت ہے۔ جس سے سیکورٹی کے روایتی تصور کو وسعت ملی ہے اور اِس سے بہتری آئے گی جو نہ صرف ریاستی سلامتی بلکہ انسانی سلامتی کے ایک کثیر جہتی تصور پر مشتمل ہو گی جو نئی قومی سلامتی پالیسی کا خاص نکتہ ہے۔قومی سلامتی سے متعلق مذکورہ دستاویز اِس بات (ضرورت) کو تسلیم کرتی ہے کہ ”معاشی‘ انسانی اور روایتی سلامتی کے درمیان ایک علامتی تعلق“ ہے۔ دستاویز کے مطابق‘ قومی سلامتی ڈویژن (این ایس ڈی) کو اس جامع ’قومی سلامتی پالیسی‘ کے ساتھ آنے میں سات سال اور سرکاری اور نجی شعبوں کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے متعدد دور لگے۔ دوسوبیس ملین (بائیس کروڑ) سے زیادہ آبادی والے ملک میں‘ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے ایک سو بیس ماہرین اور پانچ سو پیشہ ور افراد کے ساتھ مشاورت سے مرتب ہونے والی جامع پالیسی سازی کے عمل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ سیکورٹی پالیسی کو ایک لائحہ عمل کے مجموعے کی صورت دیکھا جانا چاہئے کہ جو باتیں پہلے مختلف ادارے مختلف حوالوں سے کرتے تھے اب وہ سب ایک جگہ جمع کر دیئے گئے ہیں اور قومی یا ریاستی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو اکٹھا (یکجا) کر دیا گیا ہے یقینا تحریک انصاف حکومت طویل مدتی قومی سلامتی کیلئے انسانی سلامتی کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے کریڈٹ کی مستحق ہے۔  یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان اُنیس سو پچاس کی دہائی کے اوائل سے مسلسل طویل مدتی پالیسیاں بناتا رہا ہے۔ ملکی تاریخ کے ابتدائی برس سے‘ پاکستان باقاعدگی سے پانچ سالہ منصوبوں کی شکل میں جامع پالیسیاں تیار کرتا رہا ہے۔ اِس سلسلے کا آغاز اُنیس سو پچپن سے ہوا۔ پاکستان نے 1955ء اور 1970ء کے درمیان تین پانچ سالہ منصوبے نافذ کئے۔ اس عمل میں دو بار رکاوٹ ڈالی گئی۔ حکومت 1971ء اور 1978ء کے درمیان کوئی پانچ سالہ منصوبہ نہیں بنا سکی۔ یہ عمل پانچویں پانچ سالہ منصوبہ 1978ء سے دوبارہ شروع ہوا اور آٹھویں پانچ سالہ منصوبہ 1993-98ء تک جاری رہا۔ مئی 1998ء میں پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد یہ مشق دوبارہ متاثر ہوئی۔ اس کے بعد نئی درمیانی اور طویل مدتی سیکورٹی پالیسی نے روایتی پانچ سالہ منصوبوں کی جگہ لے لی۔ پلاننگ کمیشن کے تیار کردہ اپنے پیشرو منصوبوں کی طرح‘ یہ وزارت ِخزانہ ہی تھی جس نے ملک کے لئے طویل مدتی سماجی و اقتصادی پالیسیاں تیار کرنا شروع کیں۔ سال دوہزاردس میں حکومت نے سیکنڈ جنریشن پی آر ایس پی کا آغاز کیا۔ اِس ”پی آر ایس پی ٹو“ نے 2008-09ء سے 2010-11ء تک کی مدت کا احاطہ کیا اس دستاویز نے پالیسی فریم ورک فراہم کیا ہے جو اس وقت کی حد سے باہر متعلقہ اور قابل اطلاق تھا۔ منصوبے میں غربت میں کمی اور انسانی سلامتی سے متعلق کئی اہم شعبوں کو ترجیح دی گئی اور ان کی نشاندہی کی گئی۔ غریب طبقات (عوامی بہبود) کے حامی سترہ شعبے تھے جو پانچ اہم موضوعات کے تحت آتے ہیں 1: مارکیٹ تک رسائی اور کمیونٹی سروسز۔ 2: انسانی ترقی 3: دیہی ترقی۔ 4: حفاظتی حصار اور پانچواں طرز حکمرانی (گورننس) کی اصلاح۔ اِن میں چند مزید شعبے بھی شامل ہیں جیسا کہ 1: سڑکیں‘ شاہراہیں اور عمارتیں۔ 2: کاروباری و تجارتی خدمات کے تحت پانی کی فراہمی اور صفائی۔ 3: تعلیم۔ 4: صحت۔ 5: بہبود ِآبادی کے لئے منصوبہ بندی۔ 6: انسانی ترقی کے تحت قدرتی آفات سے متعلق حکمت عملی۔ 7: زرعی شعبہ (توسیع و ترقی)۔ 8: زیرکاشت زمین کی بحالی۔ 9: دیہی ترقی۔ 10: دیہی ترقی کے تحت دیہات میں بجلی کی فراہمی۔ 11: حکومت کی جانب دی جانیوالی رعایت (سبسڈیز)۔ 12: سماجی تحفظ اور بہبود۔ 13: فوڈ سپورٹ پروگرام۔ 14: پیپلز ورکس پروگرام۔ 15: عوام کو حفاظتی حصار فراہم کرنے کے زمرے میں کم قیمت مکانات کی فراہمی جبکہ طرزحکمرانی کی اصلاح میں بطور 16انصاف کی فراہمی شامل ہے اور 17ویں درجے پر امن و امان کو رکھا گیا۔ مذکورہ پالیسی کے اغراض و مقاصد کے مطابق ایک نیا طویل المدتی منصوبہ ”اکیسویں صدی میں پاکستان: ویژن 2030ء“ کل ایک سو تریپن صفحات پر مشتمل دستاویز مشرف کی قیادت میں سال دوہزارسات میں مرتب کی گئی تھی۔ اس منصوبے کا بنیادی مشن اور ہدف ”تعلیم یافتہ‘ صنعتی‘ منصفانہ اور خوشحال پاکستان“ تھا جس میں وسائل کی محدود معیشت میں تیز رفتار اور پائیدار ترقی وضع کر دی گئی تھی۔ مذکورہ دستاویز چھ موضوعاتی شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیار کی گئی تھی‘ جس میں سترہ کم آمدنی والے طبقات (غریبوں) کی بہتری سے متعلق تھے اور اِن کی ”پی آر ایس پی ٹو“ میں نشاندہی کی گئی تھی۔ ویژن 2030ء متعلقہ شعبہ جات میں متعدد ماہرین کے کاغذات اور رپورٹس کو جمع کرنے اور ان کو شامل کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے‘ جس کے بعد دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے تفصیلی اجلاس اور مشاورت اور صوبائی حکومتوں اور متعلقہ وزارتوں کے اِن پٹ اور شراکت شامل ہے اور اِس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ معاشی استحکام‘ غربت میں کمی‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ انسانی وسائل کی ترقی اور توانائی کی ترقی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اُمید یہی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کے دور میں قومی سلامتی پالیسی مسلسل رہے اور پالیسیوں کا تسلسل اگر رہا تو ان شا اللہ اس سے وہ بہتر مستقبل حاصل ہوگا جس کی ہر پاکستانی خواہش رکھتا ہے اور جس کا ہر پاکستانی مستحق ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر مراد علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)