تبدیلی کی ہوا

سیاسی جماعتوں اور سیاست کے اپنے موسم ہوتے ہیں۔ ملک میں شدید سردی کی لہر‘ بارشوں کے سلسلے اور کورونا وبا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ پھیلنے کی شرح سے قطع نظر پاکستان مسلم لیگ (نواز) اس وقت بہت پرجوش دکھائی دے رہی ہے جبکہ ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی (پی پی پی) پرسکون ہے کہا جا رہا ہے کہ‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) تحریک ِعدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم کو نکال باہر کریں گی بشرطیکہ اس بات پر اتفاق ہو عام انتخابات کب کروائے جائیں۔  اس وقت ہماری معیشت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور جب بھی  بحران کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مراد معاشی بحران ہی ہوتا ہے۔  اور موجودہ حالات میں کہ جب پوری دنیا میں معاشی بحران ہے اس حوالے سے عوام معاملے کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ امریکہ اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس وقت معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں اور وہاں بھی اشیائے صرف مہنگی ہوگئی ہیں۔امریکہ میں گزشتہ چالیس سال کے دوران اتنی مہنگائی نہیں تھی جتنی اس وقت ہے۔ اس طرح  جرمنی اور برطانیہ میں بھی ریکارڈ مہنگائی ہے۔ اس طرح کہا جائے کہ مہنگائی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔اگر چہ اس کے ساتھ ساتھ کئی اور مسائل بھی موجود ہیں جن میں سب سے اہم کورونا کی نت نئی اقسام ہیں  اور اب تو یہ خبر بھی آئی ہے کہ زیادہ مہلک اقسام بھی سامنے آسکتی ہیں۔ بین الاقوامی امن الگ سے خطرات کا سامنا کررہا ہے اور مگر ہمارے ہاں تو مہنگائی ہی اصلہ مسئلہ ہے دیگر مسائل کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر ہماری موجودہ بحث کو سنا جائے اور اس پر یقین کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ  ہمارے ہاں سیاست کو مخالفت برائے مخالفت کا نام دیا گیا ہے اور حزب اختلاف جن مسائل کے حل کا خواب دکھا کر عوام کواپنا ہمنوا بنانا چاہتی ہے وہ مسائل بھی حل ہونے والے نہیں کہ ان کا تعلق محض ہمارے ملک سے نہیں بلکہ ان مسائل کی جڑیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اب ان کوکیسے ختم کیا جاسکتاہے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔  جو حقائق موجود ہ  حکومت نے جان لئے ہیں اور مسلم لیگ (نواز) کو معلوم ہوجانا چاہئے کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے‘ مسائل کہیں زیادہ گہرے اور پیچیدہ ہیں اور ان کے حل طویل مدتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جسے ابھی عوامی سطح پر نہیں کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کے علاوہ اکثریت اس معاملے کو کرپشن اور ووٹ کی عزت کی طرح دیکھتی ہے۔ یوں ان سخت سیاسی اور معاشی فیصلوں کی پیچیدگی پر پردہ پڑجاتا ہے کہ جن کو ابھی لیا جانا ہے ۔ یہ مسائل سیاسی استحکام  اور معاشی معاملات حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بنیں گے پھر چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو اور چاہے مسلم لیگ (نواز) کی حکومت ابھی آئے یا دیر سے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حزب اختلاف کو ان مسائل کے حل میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے جن کا سامنا مستقبل میں ان کوبھی ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)