عصری تقاضے نبھانا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا بلکہ اِن تقاضوں سے جڑی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے زندگی اکثر ایسے فیصلوں سے بھری ہوتی ہے جو اپنی فطرت میں پیچیدہ اور تیز رفتار ہونے کے ساتھ ہمیشہ ہی سے موجود تناؤ کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ اعلی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں پائے جانے والے اِس تناؤ کے پیش نظر فیصلہ سازی مشکل ہو سکتی ہے لیکن بہتر فیصلے کرنے کے لئے بہرحال تناؤ سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی وسیع و جامع انسانی سوچ سے مربوط عمل ہے اور کچھ اندازوں کے مطابق کوئی ایک فرد اپنی روزمرہ کے معمولات میں کسی ایک دن روزانہ اوسطا ًدسیوں ہزار فیصلے کرتا ہے تاہم تمام فیصلے غور و فکر یا مشکل کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اگرچہ بہت سے فیصلے کرنا نسبتاً آسان ہوتے ہیں لیکن اکثر فیصلے چیلنجنگ بھی ہو سکتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے ماحول کو تشکیل دینے والے اہم عوامل میں ایک خاص فیصلہ لینے کیلئے دستیاب وقت اور فیصلے کے ممکنہ نتائج کی شامل ہوتی ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل کو جانچنے کا ایک طریقہ نوبل انعام یافتہ ڈینیل کاہنیمن نے بتایا‘ جنہوں نے معاشیات اور نفسیات کے شعبوں میں تحقیق کی ہے۔ کاہنیمن کہتا ہے کہ سوچ مختلف نظاموں پر مبنی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر سوچ 2 طرح کے نظاموں پر مبنی ہوتی ہے ایک قسم کی سوچ آسان‘ فوری اور تقریباً خودکار طریقے سے کام کرتی ہے اور دوسری قسم کی سوچ سوچ سمجھ کر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے لیکن ایسے فیصلے سست ہوتے ہیں۔ تعلیم‘ تجربے اور سیاق و سباق میں فرق کی وجہ سے کسی مخصوص نظام کو استعمال کرنے کا رجحان ایک فرد سے دوسرے میں مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ درجہ بندی سوچ اور فیصلہ سازی کے نظام کے درمیان فرق واضح کرتی ہے لیکن اس بات پر کافی بحث ہوتی ہے کہ یہ مختلف نظام ایک دوسرے کے ساتھ کیسے مل کر کام کرتے ہیں۔ ذہنی تناؤ فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جو زیادہ تر عصری روزمرہ کے حالات میں حاوی نظر آتا ہے لیکن یہ پہلی قسم سے کافی حد تک مختلف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ سادہ ترین سوچ اور عمل کو تحریک دینے کیلئے ذہنی تناؤ کی ایک مخصوص کم سے کم سطح ہونا لازمی ہے۔ جوں جوں تناؤ کی حد بڑھتی جائے گی‘ اِس کا اثر سوچ کے منظم اور غیر منظم پہلوؤں تک جا سکتا ہے۔ تناؤ کی اعلی سطح علمی صلاحیت‘ یادداشت اور جذباتی کنٹرول کو متاثر کر سکتی ہے اور نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم اور جاننا مفید ہے کہ جسمانی تناؤ کی ایک خاص سطح‘ جس کا اندازہ جسمانی مظاہر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے‘ افراد میں ان کی شخصیت‘ صلاحیتوں اور تجربات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو مختلف طریقے سے متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ مختلف حالات کی وجہ سے افراد میں پایا جانے والا تناؤ بھی فیصلے سے متعلق فطری ردعمل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر شخصیات‘ صلاحیتیں اور تجربات فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بڑے مجمعے یا ماہرین پر مشتمل سامعین کے سامنے تقریر کرنا کچھ لوگوں کے لئے آسان نہیں ہوتا اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہیں بھی اور کسی بھی موضوع پر بنا کسی دباؤ تقریر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ غیر منظم تناؤ کا منفی اثر یہ ہے کہ یہ عقلیت کے استعمال کو محدود کر دیتا ہے اور انسان کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو کم کر دیتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تناؤ کے تحت کئے گئے فیصلے توجہ کی کمی‘ یادداشت میں خلل یا رکاوٹ‘ خلفشار میں اضافے اور اِن محرکات کی وجہ سے کمزور منطق و عقلیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ اثرات فیصلہ سازی کے عمل سے متعلق مختلف سرگرمیوں میں بھی بسا اوقات دیکھے گئے ہیں۔ بشمول کسی مسئلے کی وضاحت‘ متعلقہ متبادلات پر منظم طریقے سے غور‘ متبادل کا انتخاب وغیرہ۔ کچھ معاملات میں تیز اور ممکنہ طور پر بہتر اور ایسے شواہد موجود ہوتے ہیں جو کچھ زیادہ تناؤ والے حالات میں بدیہی فیصلہ سازی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ زیادہ تناؤ کے حالات میں‘ بہت سے لوگوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر بدیہی فیصلہ سازی کا رجحان حاوی ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ سازی کے چیلنجوں کو اعلی سطح کے تناؤ والے پیشوں میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ پھر بھی ایسے کافی شواہد موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ دانستہ اور معقول فیصلے فوری اور بدیہی فیصلوں سے بہتر ہوتے ہیں اور تحقیق واضح طور پر کم ہنر مند افراد اور ماہرین دونوں کیلئے فیصلہ سازی کے حالات میں غور و فکر کی تائید کرتی ہے۔ ایسے رویئے اور طریقہ کار جو تناؤ کی اعلیٰ سطح والے ماحول میں بہتر فیصلہ سازی کی سہولت فراہم کر سکتے ہیں ان میں تناؤ کو کم کرنے والوں کا استعمال‘ ذاتی طاقتوں اور کمزوریوں کے بارے میں بہتر آگاہی پیدا کرنا اور اقدار اور فیصلوں کے نتائج کے بارے میں وضاحت شامل ہے۔ سب سے پہلے‘ فیصلہ کرنے سے پہلے دباؤ کی سطح کو جس حد تک ممکن ہو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی شخص غیر متعلقہ چیزوں پر توجہ دے کر غیر ضروری تناؤ کا شکار نہیں ہو رہا ہے۔ غیر متعلقہ پر اس توجہ کو ’شور‘ یا فیصلے کی صورت ِحال کے اہم متعلقہ پہلوؤں سے خلفشار کے برابر کیا جا سکتا ہے۔ شور توجہ کو تقسیم کر سکتا ہے اور فیصلہ سازی کیلئے دستیاب محدود یعنی قیمتی وقت کو ضائع کر سکتا ہے۔ تناؤ کو دور کرنے کے دیگر طریقوں میں عمومی تحریک بھی شامل ہو سکتی ہے جیسا کہ فیصلہ یعنی کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل چند گہرے سانس لینا‘ اپنی حالت تبدیل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ تناؤ دور کرنے یا تناؤ بھرے عمل کا ایک ذاتی پہلو بھی ہوتا ہے یعنی وہ کسی شخص کا تناؤ دوسرے شخص کو منتقل ہونا ہے۔ دوسرا فیصلوں سے قبل ذاتی خوبیوں اور کمزوریوں کا واضح ادراک ہونا بھی یکساں اہم و ضروری ہوتا ہے۔ تناؤ کی صورت میں کئے جانے والے فیصلے ہمیشہ تناؤ بھرے نتائج کے حامل ہوتے ہیں‘ چاہے وہ فیصلے ذاتی (شخصی) ہوں یا اجتماعی‘ اِن سے حاصل ہونے والے نتائج بھی تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔ زندگی کی بیشتر پیچیدگیاں‘ روزمرہ زندگی کے فیصلوں کی وجہ سے ہیں اور ضرورت تناؤ سے عاری بہتر فیصلوں اور اِن فیصلوں پر یقینی عمل درآمد کا ہے۔ فیصلوں میں صائب الرائے افراد سے مشورہ فیصلوں کو آسان اور جامع بنانے کا باعث ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمان کے اندر کئے جاتے ہیں جہاں اجتماعی دانش سے قومی فیصلہ سازی کی جاتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران سیّد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام