مشاورت اورذمہ داری

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان فاصلے کم نہیں ہو رہے اور کوئی بھی ایسی صورت نہیں نکل رہی جس سے دو الگ الگ سیاسی مؤقف رکھنے والے قومی مسائل اور بحرانوں کے حل کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔جمہوری نظام میں حزب اختلاف کی اپنی اہمیت ہوتی ہے  اگرچہ پاکستان کی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر شہباز شریف پر کئی سنگین مقدمات قائم ہیں اور وہ تواتر سے عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں تاہم انہیں اب تک کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت وہ ایک خاطر خواہ وقت سلاخوں کے پیچھے گزار چکے ہیں اور ان پر چلنے والے مقدمات کا حتمی نتیجہ آنے تک عدالتوں نے ہی انہیں ضمانت پر رہا کیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کے لئے متعدد مقدمے جھیلنا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ جس وقت آصف علی زرداری جیل میں تھے اس دوران بے نظیر بھٹو تقریباً ہر دوسرے دن اپنے بچوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتی تھیں۔ آصف زرداری نے بھی سخت مقدمات کا سامنا کیا لیکن یہ دونوں ہی اقتدار کے منصب تک پہنچے اور وزیرِاعظم اور صدر بنے۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف پر بھی طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلا لیکن مقدمہ واپس ہونے کے بعد وہ بھی تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے۔ اس وقت جاری مقدمات سے قطع نظر پاکستان میں یہ ایک بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتیں ہمیشہ ہی حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے قائدین کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کیلئے ان کے خلاف ہر ممکن مقدمے قائم کرکے ان کی زندگی اجیرن بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شہباز شریف قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں اور ایوان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کی قیادت کرنے کی وجہ سے قائد حزبِ اختلاف کے آئینی عہدے پر موجود ہیں جس کا اعلان قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے چند اہم ترین سرکاری عہدیداروں جیسے چیف الیکشن کمشنر‘ الیکشن کمیشن کے چار ممبران اور نیب کے چیئرمین کی تقرری میں وزیرِاعظم کو ان سے مشورہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح عام انتخابات کے انعقاد کے وقت نگراں وزیرِاعظم کی تقرری میں بھی قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت ضروری ہوگی۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس مشاورت کو ’……محض رسمی طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ہے بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مؤثر‘ بامعنی‘ مقصد پر مبنی اور اتفاق رائے پر مبنی ہونی چاہئے‘ ماضی میں جب یہ مشاورت ناگزیر ہوگئی تو وزیرِاعظم نے بالمشافہ ملاقات کے بجائے قائد حزبِ اختلاف کو خط لکھنے کو ترجیح دی۔ بلاشبہ آئین کی روح کا تقاضا ہے کہ وزیرِاعظم قائد حزبِ اختلاف سے ذاتی طور پر مشاورت کریں۔ ایسا نہ کرنے سے مشاورت کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ یہ مشاورت کوئی عام ملاقات نہیں ہے۔ حال ہی میں وزیرِ خارجہ اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے قائد شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کو بطور قائد حزبِ اختلاف باضابطہ خط لکھا تھا جس میں انہیں جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تحریک سے مشاورت کرنے کی دعوت دی گئی۔۔ وزیرِاعظم ماضی میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جب ضرورت ہو تو وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کی بطور قائد حزبِ اختلاف تقرری روکنے اور بعد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ان کے انتخاب کو روکنے کا اپنا ارادہ بدل لیا تھا  اور پاکستان کے عوام بھی یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہوئے اُن مسائل کا حل تلاش کرے جو بحرانوں کی صورت خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم اصلاحات اور معاشی ترقی کے جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اس کیلئے سیاسی مفاہمت بھی ضروری ہے  اور ایسے حالات میں کہ جب حکومت کا عرصہ تھوڑا رہ گیا ہے، اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: بلال محبوب۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)