’احساس‘ تعلیمی وظائف

وفاقی حکومت نے کم آمدنی رکھنے والے طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے تعلیمی وظائف دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اِس مقصد سے وظائف کے لئے اہلیت سمیت قواعد جاننے اور وظیفے کیلئے درخواست دینے کا ’آن لائن‘ طریقہ وضع کیا گیا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ اِس موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ’گوگل پلے سٹور (Google Play Store)‘ پر دستیاب موبائل فون ایپلی کیشن School Stipend حاصل (ڈاؤن لوڈ) کرنی ہو گی۔ مذکورہ اینڈرائید موبائل ایپ کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہنے والے تعلیمی وظیفے (احساس تعلیمی وظائف) کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ ”احساس“ نامی حکمت عملی کے تحت یہ 73واں (پالیسی فریم ورک) پروگرام ہے جس کے ذریعے قومی سطح پر مستحق طبقات کی مالی مدد کی جائے گی تاکہ معیاری تعلیم سب کیلئے یکساں ممکن ہو سکے۔احساس پروگرام کا ارتقا‘ اِس کا تناظر اور پس منظر سامنے لانا ضروری ہے۔ تعلیمی وظائف مشروط نقد رقم کی صورت فراہم کئے جائیں گے جو تعلیمی اداروں میں حاضری سے مشروط ہوگا۔ سال دوہزاربارہ میں ملک میں پہلی بار پانچ اضلاع میں وسیلہ تعلیم نامی پروگرام تجرباتی طور پر شروع گیا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد پرائمری تعلیم کو فروغ دینا اور تعلیم مکمل کئے بغیر سکول چھوڑنے والوں کی تعداد کم کرنا تھا۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی حاضری یقینی اور اِس کی شرح بہتر بنائی جائے البتہ تحریک انصاف دور حکومت میں اِس مقصد کو زیادہ بلندی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ سال دوہزاراٹھارہ میں برسراقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف نے مذکورہ تعلیمی سپورٹ کا پروگرام جو پچاس اضلاع میں صرف پرائمری کی سطح تک چل رہا تھا اُسے وسعت دینے کا فیصلہ کیا اور اِس مقصد کے لئے ”احساس سکول وظیفہ پروگرام“ شروع کرنے کے لئے گہرائی سے مختلف پہلوؤں پر غوروخوض کا عمل شروع کیا گیا۔ تجزئیات سے یہ بات سامنے آئی کہ جن اضلاع میں تعلیمی وظائف دیئے جا رہے تھے وہاں اِس کے تعلیمی اداروں میں حاضری کی شرح اور شرح خواندگی پر واضح اثر نہیں پڑا اور اِس سلسلے میں خامیوں یا کوتاہیوں کا مطالعہ کر کے چار اہم باتیں سیکھنے میں آئیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ مذکورہ پروگرام نافذ کرنے کے لئے حکومتی نظام میں ادارہ جاتی صلاحیت پیدا نہیں کی گئی اور صرف غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) پر بھروسہ کیا گیا‘ جن کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں سنگین بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن پالیسی سازوں نے یہ حکمت عملیاں بنائی اُن کے اپنے مفادات کا تصادم بھی اِس پروگرام کے لئے حقیقی تشویش کا باعث تھا کیونکہ ’این جی اوز‘ کو طلبہ کے اندراج اور اُن کی حاضری کی تعمیل دونوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اِس پروگرام سے مستفید ہونے والے ’این جی اوز‘ نے اپنی خدمات کی حد سے زیادہ قیمت وصول کی اور خدمات کی فراہمی میں بلند معیار یا بہتر معیار تعلیم کی فراہمی کا بھی خیال نہیں رکھا۔ دوسرا چونکہ نظام زیادہ تر کاغذ پر مبنی تھا‘ اس لئے غلطی اور دھوکہ دہی کا زیادہ امکان موجود تھا۔ بہت سارے ایسے سکول بھی پائے گئے جو صرف کاغذوں میں بنائے گئے ایسے سکولوں کے لئے اصطلاحاً ”بھوت سکول“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جہاں حقیقی طلبہ کی بجائے غیرحاضر (بھوت) بچوں نے داخلہ لیا۔ تیسرا فی طالب علم مختص کئے گئے وظیفے کی رقم بہت کم تھی اور وظیفہ تخلیق کرتے ہوئے اِس کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کو دھیان میں نہیں رکھا گیا تھا اور نہ ہی اس میں طالبات کے دوران تعلیم سکول چھوڑنے کے مسئلے کے حل بارے سوچا گیا تھا اور یہ نکتہ بھی اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ مذکورہ پروگرام منتخب اضلاع میں صرف پانچویں جماعت کے طلبہ کی کفالت تک محدود رکھا گیا۔ احساس سکول وظیفہ پروگرام کی تشکیل کے دوران ماضی میں کئی گئیں غلطیوں‘ کوتاہیوں اور کمی کو پورا کیا گیا ہے۔ نئی حکمت عملی کے چار ستون (بنیادی نکات) ہیں۔ سب سے پہلے‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ادارہ جاتی صلاحیت تخلیق کی گئی۔ ملک بھر میں نجی اداروں (این جی اوز) پر انحصار سوفیصد ختم کر دیا گیا ہے۔ قریب دوہزار اراکین کو اہلیت کی بنیاد پر چنا گیا ہے۔ ہارڈ وئر کی گنجائش رکھی گئی ہے اور پراجیکٹ مینجمنٹ اور مانیٹرنگ میکانزم قائم کئے گئے ہیں تاکہ ہر قدم پر شفافیت ممکن ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے کے انتظامی امور کی لاگت آٹھ فیصد سے کم ہو کر تین فیصد رہ گئی ہے (این جی اوز اور دیگر ادارے آٹھ فیصد لاگت پر چلتے تھے)۔ دوسرا تعلیمی وظائف پروگرام کو بنا کاغذ (پیپر لیس) اور مکمل طور پر ٹیکنالوجی (اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹل) سے لیس کیا گیا ہے اور اِس مقصد کیلئے تکنیکی باریکیوں و جامعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایپس کو تین ڈیٹا بیس کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ فائدہ اٹھانے والے خاندان کی تصدیق کیلئے احساس ڈیٹا بیس‘ بچے کے بی فارم کی تصدیق کیلئے نادرا ڈیٹا بیس اور متعلقہ تعلیمی اداروں کی تصدیق و ٹیگنگ کرنے کیلئے صوبائی محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے مدد لی جائے گی۔ اِس پورے عمل (وظائف) کی ڈیجیٹائزیشن نے غیرمستحق اور تصوراتی اداروں (گھوسٹ سکولز) و بچوں کی صورت وسائل کے ضیاع کا امکان ختم کردیا ہے۔ نئے پروگرام میں وظیفہ کی رقم بھی بڑھائی گئی ہے اور اِسے لڑکیوں کے حق میں رکھا گیا ہے تاکہ خواتین میں شرح خواندگی بڑھے۔ ابتدائی طور پر پرائمری سکول جانے والے بچوں کیلئے وظیفہ دوگنا کر دیا گیا تھا اور لڑکیوں کیلئے اِسے مزید بڑھایا گیا ہے۔ احساس سکول وظیفے کے تحت‘ پرائمری سکول کی سطح پر لڑکیلئے ڈیڑھ ہزار روپے جبکہ لڑکی کیلئے دوہزار روپے فی سہ ماہی فراہم کئے جائیں گے جبکہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکولوں کی سطح پر زیرتعلیم رقم بالترتیب ڈھائی ہزار روپے سے تین ہزار روپے اور ساڑھے تین ہزار روپے سے چار ہزار روپے ہے۔ لڑکیوں کو زیادہ ترغیب و متوجہ کرنے کیلئے احساس تعلیمی وظیفہ پروگرام میں والدین کیلئے مراعات کا انتظام کیا گیا ہے۔ پاکستان اب دنیا کا واحد ملک ہے جو اس قدر بڑے پیمانے پر کسی پروگرام میں لڑکیوں کو نسبتاً زیادہ تعلیمی وظائف دیتا ہے۔ احساس وظائف نے لڑکیوں کو پرائمری تعلیم مکمل کرنے کیلئے تین ہزار روپے کا یک وقتی گریجویشن بونس بھی متعارف کرایا ہے۔ یہ پانچویں جماعت تک تعلیم مکمل کرنے والی طالبات کو دیا جا رہا ہے۔ گریجویشن بونس سیکنڈری سطح تک لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کیلئے وضع کیا گیا ہے۔ آج تین سال کے کام‘ ادارہ جاتی ڈھانچے کی صلاحیت و تعمیر اور اِس پالیسی کے وسیع ڈھانچے کے بعد‘ احساس وظیفے ملک کے ہر حصے میں اہل خاندانوں کیلئے دستیاب ہیں۔ تمام صوبوں (وفاق کی اکائیوں) کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط کئے گئے ہیں تاکہ اِس وفاقی حکمت عملی میں صوبوں کے تعاون کو بھی یقینی بنایا جا سکے کیونکہ صوبے اس پروگرام میں سکولوں کے معیار کیلئے ذمہ دار ہیں۔ گزشتہ ہفتے تک‘ احساس وظائف سے مستفید ہونے والے خاندانوں کو اپنے بچوں کی رجسٹریشن کیلئے دفاتر جانا پڑتا تھا لیکن اب اینڈرائیڈ ایپ کی دستیابی کے بعد ان وظائف کیلئے آن لائن رجسٹر ہو سکیں گے تاکہ تعلیمی مالیاتی رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ احساس کے حال ہی میں مکمل کئے گئے قومی سماجی و اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں اُنیس ملین (ایک کروڑ نوے لاکھ) بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں‘ جنہیں فوری طور پر سکولوں میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ احساس تعلیمی وظائف سکولوں سے باہر بچوں کو تعلیمی نظام میں شامل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم انسانی وسائل (افرادی قوت کی صورت سرمائے) کی ترقی و تحفظ کے لئے اہم ہے اور پاکستان کی افرادی قوت کو عالمی سطح پر یکساں مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کا واحد اور سب سے اہم عنصر ہے۔ احساس سکول کے وظیفے پہلی جماعت (گریڈ ون) سے بارہویں جماعت تک اور احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ اور انڈرگریجویٹ سکالرشپ تعلیم مکمل کرنے کے لئے مالی معاونت و مددگار ہیں۔ وفاقی حکومت ان تعلیمی وظائف کو مستحق طلبہ کیلئے اہلیت پر چلانے اور اِس حکمت عملی کے غلط استعمال سے تحفظ کیلئے بھی کوشاں ہے۔ (مضمون نگار سینیٹر ہیں اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت و سماجی تحفظ ہیں۔ اِن سے بذریعہ ٹوئیٹر @SaniaNishtar رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ بشکریہ: دی نیوز۔  ترجمہ: ابوالحسن امام)