قومی اقتصادی مفاد

کسی بھی قوم کا ”قومی مفاد“ اُس کے اجتماعی مفاد کا مظہر ہوتا ہے اور یہ کسی ایک گروہ یا اداروں کے مفاد سے بالاتر ہوتا ہے۔  بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہمارا قومی معاشی مفاد کہاں کھڑا ہے؟ برآمدی اشیاء: پاکستان کی برآمدات میں سرفہرست بیڈ لینن‘ ٹیبل لینن‘ ٹوائلٹ لینن اور کچن لینن ہیں جن کا مجموعی برآمدی حجم قریب ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پاکستان درحقیقت دنیا میں کپڑے برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چاول ہماری دوسری سب سے بڑی برآمدی جنس ہے جو سالانہ دو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا برآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بنا سلے ہوئے مردوں کے سوٹ کی برآمدات سے ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر‘ سوتی دھاگے کی برآمد سے سالانہ ایک ارب ڈالر اور خواتین کے بنا سلے سوٹ کی برآمدات سے سالانہ ساڑھے نو سو ملین ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔ برآمدی مقامات: پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو جاتی ہیں جو سالانہ 4 ارب ڈالر مالیت کی ہیں۔ امریکہ کے بعد چین دو ارب ڈالر‘ جرمنی 1.8 ارب ڈالر‘ برطانیہ 1.6 ارب ڈالر اور افغانستان ایک ارب ڈالر برآمدات ہوتی ہیں۔ درآمدی اشیاء: پاکستان کی سب سے زیادہ درآمد ہونے والی جنس ’ریفائنڈ پیٹرولیم‘ ہے جس کی سالانہ مالیت قریب پانچ ارب ڈالر بنتی ہے اس کے بعد خام پیٹرولیم (چار ارب ڈالر)‘ پیٹرولیم گیس (تین ارب ڈالر)‘ پام آئل (دو ارب ڈالر) اور سکریپ آئرن (ڈیرھ ارب ڈالر) ہے۔ یہ اشیاء پاکستان کو برآمد کرنے والا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک چین (پندرہ ارب ڈالر) ہے‘ اس کے بعد متحدہ عرب امارات (چھ ارب ڈالر)‘ امریکہ (ڈھائی ارب ڈالر)‘ سعودی عرب (ڈھائی ارب ڈالر) اور انڈونیشیا (دو ارب ڈالر) ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور ہر سال چھ سو ملین ڈالر مالیت کی خشک چائے درآمد کی جاتی ہے۔بیرونی قرضہ: پاکستان کے کل ایک سو ستائیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا قریب پچاس فیصد مغرب کے زیر تسلط مالیاتی اداروں اور دیگر تیس فیصد بھی مغربی مالیاتی اداروں کو واجب الادأ ہے۔ چین سے حاصل کیا گیا قرضہ پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کا پندرہ فیصد یعنی تقریباً سترہ ارب ڈالر ہے۔ ترسیلات زر: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ارسال کردہ ترسیلات زر میں سرفہرست سعودی عرب ہے جہاں سے سولہ فیصد ترسیلات زر آتی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی بارہ فیصد ترسیلات زر کرتے ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران سپین سے ترسیلات زر میں چھ سو پچاس فیصد‘ فرانس سے نوسوپچاس فیصد اور اٹلی سے ایک ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلا نتیجہ: پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت سات ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور امریکہ ایسا واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد سرپلس تجارت کرتا ہے۔ یہی پاکستان کا قومی معاشی مفاد ہے کہ برآمدات زیادہ اور درآمدات کم کی جائیں۔ دوسرا نتیجہ: پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت تقریباً سولہ ارب ڈالر ہے اور چین واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کو سالانہ گیارہ ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ تیسرا نتیجہ: پاکستانی برآمدات کا تقریباً ساٹھ فیصد درجن بھر ممالک خریدتے ہیں جن میں امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ ہالینڈ‘ اسپین‘ اٹلی‘ بیلجیم‘ فرانس‘ کینیڈا‘ پولینڈ‘ پرتگال اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اِسی میں پاکستان کا قومی معاشی مفاد مضمر ہے کہ درآمدات کے مقابلے برآمدات زیادہ ہوں۔ چوتھا نتیجہ: پاکستان کے تمام بیرونی قرضوں کا قریب پچاسی فیصد امریکہ کے زیرتسلط کثیر جہتی اور تجارتی ذرائع سے آتا ہے۔ یہی ہمارا قومی معاشی مفاد ہے۔ پانچواں نتیجہ: جیو اکنامکس ”قومی مفادات کے فروغ اور دفاع کیلئے معاشی آلات کا استعمال“ ہے۔ اس وقت وہی ممالک اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں جو اولین مرحلے میں اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں کیونکہ عالمی سطح پر اپنی اہمیت اور سالمیت منوانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی معاشی خودمختاری ایک ٹھوس حقیقت کی صورت میں موجود ہو۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)