دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب امریکہ کے صدر فرینکلن روزویلٹ‘ برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل اور سوویت یونین کے وزیراعظم جوزف سٹالن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جسے ’یالٹا معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔ یالٹا کے مقام پر ہونے والے اِس معاہدے کے تحت جرمنی کے غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے بعد اِسے چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گاجس کے الگ الگ حصوں کو امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور سوویت یونین کی فوجیں کنٹرول کریں گی۔برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے روس کے خلاف پابندیوں کی دھمکیوں کے بعد یورپ کے حالات خطرناک رخ اختیار کر رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے ایسے افراد اور اُن کے دوست احباب کی فہرستیں تیار کر لی ہیں‘ جنہیں صدر پوٹن کے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی صورت میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لندن‘ جو بہت سی جنگوں‘ تنازعات اور بحرانوں کے دوران ہمیشہ واشنگٹن کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہے‘ ماسکو کے خلاف پابندیوں کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے یوکرین کے خلاف ’روسی جارحیت‘ کی صورت میں برطانیہ کی پابندیوں کے نظام کو وسعت دینے کے لئے نئی قانون سازی کا اعلان کیا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کے تحت پابندیاں روسیوں کے لئے مہلک ثابت ہوں گی۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو صدر پیوٹن کے قریبی سمجھے جاتے ہیں یا کیف کے خلاف کسی بھی ممکنہ جارحیت کی حمایت کر سکتے ہیں ان کو بھی ان پابندیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اِن کے اثاثے منجمد کئے جانے کا بھی امکان ہے۔ فی الحال لندن صرف ان لوگوں پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے جو یوکرین میں روسی کاروائیوں سے براہ راست منسلک ہیں لیکن نئی طاقتیں ایسے افراد اور کاروباری اداروں کی ایک وسیع رینج کو نشانہ بنانے کی اجازت دیں گی۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی درخواست پر یو این ایس سی کے اجلاس میں روس کے فوجی دستوں کی تشکیل پر بیان سامنے آیا ہے۔ بائیڈن نے میٹنگ کے آغاز پر روس کو خبردار کیا کہ اگر اس نے ”سفارت کاری کی بجائے“ تصادم کا انتخاب کیا تو اِسے ”سنگین نتائج“ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماسکو کا خیال ہے کہ پابندیاں عائد کرنے سے برطانوی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ روس نے مبینہ طور پر ایک لاکھ فوجیوں‘ ٹینکوں‘ توپ خانے اور میزائلوں کو یوکرین کی سرحدوں کے قریب رکھا ہے لیکن ماسکو نے مغربی دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے کہ یہ بڑا ملک سابق سوویت جمہوریہ کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے‘ جو یورپی یونین کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کر رہا ہے اور نیٹو میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ نیٹو میں ممکنہ شمولیت نے روس کی حکمران اشرافیہ کو پریشان کر رکھا ہے جو اس طرح کی شمولیت کو ایک ایسے ملک کی سرحدوں کے لئے سنگین خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر مغربی طاقتوں نے دو بار حملہ کیا اور اسے موت و تباہی کی کھائی میں دھنسا دیا تھا۔ اگرچہ نیٹو بھی اس ممکنہ روسی حملے کا فوجی طور پر مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یورپ اور امریکہ کے سخت گیر لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب ہیلسنکی ماڈل پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے جو تنازعات کو سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کا نقطہ نظر ماسکو کو اپنے پڑوسیوں کو ڈرانے اور مغربی ممالک کو بلیک میل کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ مغرب نے خوشامدانہ پالیسی اپنا رکھی ہے جس نے ماضی میں جارجیانا اور یوکرین کے ساتھ روسیوں کے برتاؤ کو نظر انداز کیا تھا۔ اِس صورتحال میں جہاں ایک طبقہ روس کی مبینہ توسیع پسندانہ پالیسیوں پر تنقید کر رہا ہے وہیں سخت گیر اور سخت ترین فوجی کاروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ کچھ حقیقت پسند مکتبہ فکر کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یالٹا ماڈل‘ جس نے عالمی طاقتوں کو امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ کے اثر و رسوخ کو قبول کیا تھا پر عمل کیا جائے اور سوویت روس دنیا کے مختلف حصوں میں لیکن بنیادی طور پر یورپ میں کام کر سکے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یالٹا کانفرنس میں بنیادی طور پر جاپان مخالف جنگ کے علاؤہ چند دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا لیکن حقیقت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ اس نے یورپ میں ماسکو اور دیگر اتحادی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو بھی قبول کیا۔ اس طرح کے افہام و تفہیم نے مغربی طاقتوں کو خاموشی اختیار کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ وسطی اور مشرقی یورپ کے ممالک نے کمیونزم کو قبول کیا۔ ماسکو اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس خاموش تفہیم نے یورپ میں استحکام کا ایک ایسا مادہ لایا جو دوسری جنگ عظیم سے تباہ ہو چکا تھا۔ ابتدائی طور پر‘ جرمنی کو چار زونز میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں تمام طاقتیں اپنے اپنے علاقوں میں موجود تھیں۔ بعد میں پورے براعظم کو نظریاتی خطوط پر تقسیم کر دیا گیا۔ مشرقی اور وسطی یورپ سوویت یونین کے زیر اثر اور براعظم کا مغربی حصہ فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ جیسے غیر کمیونسٹ ممالک کے پاس چلا گیا۔ اگرچہ امریکہ اور سوویت یونین اپنے اتحادیوں کے ساتھ دنیا کے دوسرے حصوں میں لڑتے رہے لیکن انہوں نے یورپی براعظم پر جمود کو قبول کیا جس سے نہ صرف سیاسی استحکام آیا بلکہ امن و خوشحالی بھی آئی۔ جب کہ جزیرہ نما کوریا اُنیس سو پچاس کی دہائی میں جنگ کی آگ میں دہک رہا تھا اور ویت نام 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں ایک خوفناک تنازعہ کی لپیٹ میں تھا جس میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں اس وقت فلپائن اور پورا مغربی نصف کرہ امریکہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جو اسے اپنے اثر و رسوخ کے علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر مغربی طاقتوں کے اثر و رسوخ کے علاقوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے تو ماسکو کو اپنا اثر و رسوخ رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ ماسکو نے امریکہ کو خطے سے نکالنے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ اس نے وسطی ایشیائی ریاستوں کو یہ باور کرانے کیلئے سفارتی‘ اقتصادی اور دیگر حربے استعمال کئے کہ امریکی موجودگی روسی مفادات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ عالمی طاقتوں کا دنیا کے مختلف حصوں میں اثر و رسوخ رکھنے کے حق کو قبول کرنا ناگوار ہے لیکن عملی سیاست میں تناؤ‘ جنگوں اور تنازعات سے بچنے کے لئے اس طرح کی آمادگی و قبولیت ضروری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام