نوے کی دہائی کی بات ہے جب لندن میں بے مقصد چہل قدمی اکثر ’کاؤنٹی ہال‘ پر آکر ختم ہوتی تھی جو خوبصورت عمارت تھی تاہم یہ اُن دنوں ویران منظر پیش کرتی تھی۔ اس کی دیکھ بھال نہ ہونے اور اس کے خالی پن کے باوجود اس کی عظمت برقرار تھی۔ اس حوالے سے بہت افواہیں اڑتی رہتی تھیں کہ حکومت اس کے ساتھ کیا کرے گی۔ کیا اسے لندن میں کسی کالج کو فروخت کردے گی جس کے پاس دولت بہت ہے لیکن جگہ کی کمی ہے یا کسی ایسے شخص کو فروخت کردے گی جو یہاں ہوٹل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کاؤنٹی ہال کے بارے میں ہونے والے مباحث سے ماضی میں سفر شروع ہوجاتا جو لامحالہ مارگریٹ تھیچر کے دور اور ان کی حکومت پر آکر ختم ہوتا۔ یورپ سے باہر کچھ لوگ ہی اس بات سے واقف ہیں کہ مارگریٹ تھیچر نے مقامی حکومتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ انہوں نے گریٹر لندن کونسل اور دیگر کو ختم کردیا تھا۔ اُن دنوں گریٹر لندن کونسل کی قیادت لیبر پارٹی کے ایک رہنما کین لِونگسٹون کے پاس تھی۔ کین لِونگسٹون نے بے روزگاری کے اعداد و شمار کو کاؤنٹی ہال میں آویزاں کرکے‘ بس اور ٹیوب کے کرائیوں میں کمی اور سیاسی رہنما ’سِن فِن‘ کے ساتھ رابطے رکھ کر ماگریٹ تھیچر کو اپنا مخالف بنا لیا تھا۔ بلآخر مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے گریٹر لندن کونسل کو تحلیل کردیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت واپس ہوا جب ٹونی بلیئر کی قیادت میں لیبر پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی۔ قانون میں تبدیلی کرکے گریٹر لندن اتھارٹی قائم کی گئی اور شہر کے میئر کیلئے براہ راست انتخابات کی اجازت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (بلدیاتی نمائندوں) کے لحاظ سے پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں ہے بالخصوص جب ہم اِس کا موازنہ لندن (برطانیہ) سے کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک ہو‘ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر لیکن اِس کی سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی الگ ترجیحات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مقامی حکومتوں کو خاطرخواہ پنپنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ اِسی طرح جب ہم سیاسی جماعتوں کے ہتھکنڈوں کی بات کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں مقامی حکومتوں کو گھیرا ہوا ہے تو لندن کا کاؤنٹی ہال (جسے اب ایک ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے) اور برطانوی سیاست کا یہ باب ضرور ذہن میں آتا ہے۔ کم از کم میرے لئے تو اس کہانی میں یہی سبق موجود ہے کہ آئینی تحفظ کی غیر موجودگی میں بھی مقامی حکومتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں مقامی حکومتوں کے حالات زیادہ مختلف نہیں اور یہاں بھی بلدیاتی حکومتیں صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔اس میں جس قدر حقائق و تفصیلات کا مطالعہ کیا جائے اُسی قدر افسوس ہوتا ہے لیکن یہ سندھ ہے جہاں ہمیں برطانیہ کی بالکل متوازی صورتحال نظر آتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ کراچی کی مقامی حکومت پر کسی مخالف جماعت کے کنٹرول کا خوف ہی قانون سازی کی بنیاد ہے۔ مارگریٹ تھیچر اور مقامی حکومتوں کی کہانی کی طرح سندھ میں بھی مقامی حکومتوں سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا ریکارڈ کراچی کی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ تلخ ہی نظر آتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں مقامی حکومتوں کے قانون پر کافی بحث ہورہی ہے۔ یہاں کسی کو حکومت کے لائحہ عمل کے بارے میں جاننے کے لئے کوئی اخباری کالم نہیں پڑھنا پڑتا بلکہ سڑکوں پر ہونے والا ہنگامہ ہی اس بارے میں آگاہ کردیتا ہے۔ یہاں جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب دسمبر میں نئے ترمیم شدہ قانون کو گورنر سندھ کی منظوری کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس سے قبل صوبائی اسمبلی میں بل کو جس طرح منظور کیا گیا اس سے قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رویئے کی یاد تازہ ہوگئی۔ تفصیلات یہ ہیں کہ گورنر کو ترمیمی قانون پر دس اعتراضات لگا کر اِسے منظور کئے بغیر واپس کر دیا تھا۔ ان میں ایک اعتراض اس شق پر بھی تھا جس کے تحت کونسلز ’کسی بھی شخص‘ کو میئر ڈپٹی میئر چیئرمین اور وائس چیئرمین کے طور پر منتخب کر سکتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی بھی غیر منتخب شخص کو آخری وقت میں منتخب کروانے کا راستہ کھل جائے گا۔ گورنر کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ کراچی میں صحت کی سہولیات کو بھی صوبائی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق سندھ حکومت نے ان اعتراضات پر توجہ دینے اور انہیں دور کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اس سے مطمئن نہیں ہوئیں۔ اس کے بعد الزامات اور جوابی الزامات نے ماحول گرمائے رکھا یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا دھرنا شروع ہوگیا اگرچہ اس مظاہرے نے بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھائے رکھا لیکن گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کی ریلی اور اس میں ہونے والے تشدد سے معاملہ بحرانی صورت اختیار کرگیا۔ اسی رات سندھ حکومت اور جماعت اسلامی بلدیاتی قانون کے حوالے سے ایک معاہدے پر پہنچ گئے جسے کچھ لوگ بہت غیر معمولی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اب بھی مطمئن نہیں اور وہ اپنا احتجاج جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے میں دو ہفتوں کے اندر قانون میں ترمیم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے تاکہ مقامی حکومتوں کو صحت اور تعلیم سے متعلق اختیارات واپس دیئے جاسکیں اور ساتھ ہی کراچی کے میئر کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ معاہدے میں بلدیاتی انتخابات کے تیس روز کے اندر صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) کے قیام‘ اجلاس اور ایوارڈ کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان بدستور شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ وہ نہ صرف پیپلزپارٹی کی جانب سے ان وعدوں کی پاسداری کے حوالے سے اعتماد نہیں کرتے بلکہ انہیں اس فیصلے پر بھی اعتراض ہے کہ میئر کو بغیر کسی مالی اور انتظامی اختیار کے ان بورڈز کا چیئرمین بنایا جائے گا۔ یہ تمام نکات درست ہیں لیکن مقامی حکومتوں کے نظام میں حقیقی طاقت اور خاص طور پر سے مالی اختیارات کی ہمیشہ سے ہی کمی دیکھی گئی ہے۔ اگر صدر مشرف کے دور میں کراچی کو مالی وسائل دیئے گئے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صدر مشرف کے دل میں اپنے آبائی شہر (کراچی) کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اس کے علاؤہ شاید ہی کوئی وجہ ہو اور اس طرح خواہشات اور ترجیحات قانونی تحفظ پر غالب آ گئیں۔ سال دوہزاردو کے قومی انتخابات ہونے کے بعد کراچی سے باہر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے انہی اختیارات کے مزے اڑائے جو کبھی مقامی حکومتوں کے پاس تھے۔ یہ تنازعات آج بھی موجود ہیں۔ آخر ہم سندھ حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے ایکٹ کے ”شیڈول 9“میں موجود ان نگینوں کو اور کس طرح بیان کرسکتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ”کسی بھی ضلع کا ایس ایس پی پولیس ضلعی پولیسنگ کے منصوبے کے مطابق مؤثر پولیسنگ کے لئے میئر یا چیئرمین کے ساتھ تعاون کرے گا تاہم یہ تعاون ضلعی پولیس کے انتظام‘ مقدمات کی تحقیقات اور پولیس کے پاس موجود پراسیکیوشن کے امور میں نہیں کیا جائے گا۔“ اسی طرح صحت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”سرکاری پرائمری ہیلتھ کیئر ادارے کا انچارج سہ ماہی رپورٹ ڈسٹرکٹ کونسل میں یونین کونسل یا پھر کسی کارپوریشن میں یونین کمیٹی یا کسی میونسپل کمیٹی میں ٹاؤن کمیٹی کو پیش کرے گا۔ کونسل ان رپورٹوں پر غور کرے گی اور اپنے مشاہدات ادارے کے سربراہ کو بھیج دے گی جس کی ایک نقل حکومت ِسندھ کے محکمہ صحت کو بھی ارسال کی جائے گی۔“ کوئی صوبہ ہو‘ بلدیاتی نظام عوام کے حق میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے پہلے سے زیادہ کوششیں کرنا ہوں گی اور اِس سلسلے میں عوام سے زیادہ سیاسی فیصلہ سازوں کی آمادگی ضروری ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام