نیم استحکام؟

وزیراعظم کا دورہئ چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کے عزم اور چین کی طرف سے  دیگر شعبوں میں تعاون مثبت خبریں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی‘ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ میں معمولی اضافہ یا پاکستان میں حصص کا کاروبار (اسٹاکس مارکیٹ) میں بھی کچھ بہتری آئی ہے۔  دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف  کے قرضوں سے نجات پائے تو تب ہی مکمل معاشی استحکام کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے۔ قرض درحقیقت ایک جال کی طرح ہوتا ہے  کہ جس کا لینا آسان مگر اس کی ادائیگی وقت گزرنے کے ساتھ مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو جس انداز میں اپنے ہاں زرعی شعبے کو اہمیت دینا چاہئے تھی اُتنی (خاطرخواہ) اہمیت نہیں دی جا رہی۔ سال دوہزاراکیس کے آخر تک زرعی شعبے کی سرپرستی کی بجائے اِس سے سرکاری لاپرواہی کی مثالیں سامنے آئیں جیسا کاشتکاروں کو بروقت کھاد کا نہ ملنا اُور کھاد کی قیمتوں میں سوفیصد سے زائد اضافے کی وجہ سے فصلوں کے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ علاؤہ ازیں پاکستان میں کاشتکاروں اور کسانوں کو دیگر محرکات کے باعث بھی نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں‘ جس میں اعلیٰ معیار کے تصدیق شدہ بیجوں کی کمی اور عدم دستیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اِس کے علاؤہ زرعی شعبے کی خدمت کرنے کے لئے حکومتی ادارے تو موجود ہیں لیکن اُن کی کارکردگی مایوس کن جبکہ زرعی شعبے میں تحقیق کا فقدان پایا جاتا ہے۔ پاکستان ’سی پیک‘ کا حصہ ہے اور اِس سی پیک جیسے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے چین سے زرعی شعبے کیلئے ٹیکنالوجی اور کاشتکاری کے علوم میں تحقیق و تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ وقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور قومی و صوبائی فیصلہ ساز سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر ملکی ترقی کے بارے میں سوچیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں اور یہ منزل اُس وقت تک حاصل نہیں ہوگی جب تک سیاسی جماعتیں اپنی ذات میں جمہوری نہیں ہو جاتیں۔ المیہ ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کرتی ہیں اور ایسی صورت میں طرزحکمرانی کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جمہوریت کے نام پر قائم طرز حکمرانی سے وابستہ عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات کماحقہ پوری ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے روشن‘ محفوظ‘ پائیدار اور ترقی کے ضامن مستقبل کیلئے مکمل سیاسی استحکام ضروری ہے جس کے بعد اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتی حکمت عملیاں جز وقتی نہ ہوں بلکہ یہ طویل مدتی‘ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ترقی پسندانہ سوچ کی عکاس بھی ہونی چاہئیں بصورت دیگر نیم استحکام کو مکمل و جامع استحکام سے نہیں بدلا جا سکے گا۔یعنی سب سے اہم معاشی استحکام ہے جس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اگر کوئی ملک معاشی طور پر خود کفیل ہے اور وہ اقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم ہے تو وہ نہ صرف اندرون ملک خوشحالی اور ترقی میں کامیاب پالیسیوں پر عمل پیرا رہ سکتا ہے بلکہ خارجی محاذ پر بھی اس کی بات میں وزن ہوتا ہے اور اس کا موقف قابل قبول ہوتا ہے چین اس کی روشن مثال ہے جس کے مخالفین بھی اس کے موقف اور اہمیت کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے معاشی طور پر اپنے آپ کو منوا لیا ہے اور پوری دنیا پر کوئی راج کر رہا ہے تو وہ چین ہے اس کی وجہ معاشی پالیسی ہے چین نے اپنے آپ کو ممکنہ حد تک تنازعات اور جنگوں سے دور رکھا ہے اور اس دوران اپنی تمام توجہ معاشی استحکام پر مرکوز رکھی اس حقیقت کو کوئی دشمن ملک بھی رد نہیں کر سکتا کہ چین میں ریکارڈ مدت میں غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والی ایک بڑی آبادی کو اس سے نکالا ہے اور ان کو خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کیا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری ترجمہ: ابوالحسن امام)