عوام کے حقوق: محافظ کون؟

پاکستان کو اس وقت کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔بدقسمتی سے ہمیں ایسا پڑوسی ملا ہے جو ہماری ملکی سلامتی اور حفاظت کے درپے  ہے اور روز اوّل سے اس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔دوسری طرف حکومت ملکی معیشت کو مضبوط کرنے اور کورونا وبا سے متاثرہ عالمی معیشت کے اثرات کو زائل کرنے  اور  بھوک و افلاس سے نمٹ رہا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ اپنی جگہ تشویشناک ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے  اکا دکا دہشت گردی  کے واقعات بھی ہوئے ہیں  اور یہ بات ثبوتوں سے عیاں ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو کس ملک کی شہ حاصل ہے،بھارتی جاسوس کلبھوشن اس کا واضح ثبوت ہے  اور یہاں پر پاکستان دشمن قوتوں کی سرگرمیاں دراصل چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے اور چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی روابط کی راہ میں رکاوٹ ڈالناہے۔اب ایسے حالات میں قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیں اور ایسا ماحول تشکیل دیں جہاں وطن دشمن عناصر کو غلط فہمیاں پھیلانا اور اپنا مقصد حاصل کرنا آسان نہ ہو۔ دوسری طرف کراچی میں بھی پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) بلدیاتی قانون پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہ اختلاف  ایک طرح سے تصادم کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہی ہیں۔ مقامی حکومتیں اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور حکومت کی طرف سے ان مقامی حکومتوں سے بہت سارے اختیارات چھیننے کا عمل محض ایک ایسی چیز ہے جو مقامی حکومت کے پورے عمل کو مذاق میں بدل دیتا ہے۔ تاہم اس مسئلے کو تصادم کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہئے جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے عملی کوشش کرنا ہوگی کہ کراچی میں تشدد واپس نہ آئے اور یہ کہ سندھ حکومت یہ کام کرنے کے قابل ہے کہ موجودہ مقامی حکومتوں سے متعلق مسائل کو کیسے نمٹا جائے اور وہ اس سطح پر قائم حکومتوں کے ساتھ اختیارات کا اشتراک کیسے کرسکتی ہے جس کے ذریعے لوگوں کے مسائل آسانی سے حل ہوں۔ کراچی میں تعمیروترقی کا عمل سستی کا شکار ہے۔ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے‘ جہاں سڑکیں کھودی گئی ہیں اور تقریباً ہر گلی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹھوس فضلہ (گندگی) اٹھانے یا نالوں کو صاف رکھنے کی کوششیں ہر دور میں نئے عزم میں شروع کی جاتی ہیں لیکن یہ کامیاب نہیں ہوتیں اور ایسا اِس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ملک کے بڑے شہر میں شہری سہولیات کا نظام ڈھانچہ کمزور ہے۔اس مقصد کیلئے بلدیاتی نظام ایک اہم اکائی ہے جہاں پر بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اور اس کے نتیجے میں معاشرتی ہم آہنگی فروغ پا سکتی ہے۔  دوسری طرف پا کستان میں مختلف وجوہات کی بنا پر نقل مکانی کا عمل بھی جاری ہے جو پریشان کن ہے۔  یہ پریشان کن ہے کہ بہت سارے لوگ جنہوں نے اپنے مطالعے یا تخصص کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں‘ پاکستان چھوڑنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم کے حامل زیادہ تر نوجوان مختلف رنگوں کے پاسپورٹ کیلئے درخواست دینے کے خواہشمند ہیں۔ ذہین لوگوں کے پاکستان چھوڑنے کے رجحان کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے کچھ سراہے نہ جانے کی وجہ سے ملک چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس رجحان کا خاتمہ کرنا بھی ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ہر ممکن کوشش وقت کی ضرورت ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)