آئین ِپاکستان کے آرٹیکل پچیس کی پہلی شق کے مطابق ”تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانون اِن کے مساوی تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔“ پاکستان کیلئے جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم خوشحالی اور استحکام کی مطلوبہ معیار کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ جو کامیاب اور مضبوط قوموں کی تعمیر کے ضروری عناصر میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مساوات کا ’بنیادی تصور‘ بگڑ چکا ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہونا چاہئے تھا؟ اگر ایسا ہے تو‘ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں اور ہم نے مساوات کی بجائے تفاوت کیسے پیدا کی ہے‘ جس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں جمہوریت کے باوجود مسائل بھی موجود ہیں؟ سال دوہزار گیارہ سے سال دوہزارسولہ تک خدمات انجام دینے والی کوسوو (Kosovo) کی تیسری اور پہلی خاتون صدر عاطفیت جھجاگا (Atifete Jahjaga)کا خیال ہے کہ ”جمہوریت تنگ نظری کے ماحول میں نہیں بلکہ کھلے معاشروں کے ذریعے تعمیر ہونی چاہئے جو معلومات کے تبادلے اور اشتراک کو اہم سمجھتے ہیں۔ (بنیادی بات یہ ہے کہ) جب معلومات ہوتی ہے تو اِس سے روشن خیالی جنم لیتی ہے۔ جب بحث ہوتی ہے تو مسائل کے حل دریافت ہوتے ہیں۔ جب اقتدار میں حصہ داری نہ ہو‘ قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ احتساب نہ ہو تو زیادتی‘ بدعنوانی‘ محکومی اور غصہ عام ہوتا ہے۔“ ایسی صورت میں کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا لیکن اس بیان کی حکمت کو تسلیم کرتا ہے۔ موثر حکمرانی کیلئے ریاست کے ہر فرد کے بارے میں بنیادی معلومات کا تبادلہ اولین ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤثر منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم کیلئے پوری آبادی کے کوائف (ڈیٹا) آسانی سے دستیاب ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عدم توازن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور جہاں کچھ علاقے ترقی کرتے ہیں وہیں دیگر پسماندگی میں پھنس جاتے ہیں۔ اس صریح عدم مساوات کے تحت‘ مخصوص طبقے ہی تیزی سے ترقی کرتے ہیں جبکہ دیگر پسماندہ اور ناخواندہ رہ جاتے ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے‘ جس سے اکثریت کو غربت یا کم وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ ترقی نہیں کر پاتا“ ایک ایسے ماحول میں کسی قوم کی راتوں رات تبدیلی کی امید رکھنا ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ بنیادی معلومات اکٹھا کرنے اور اِس کا تبادلہ (شیئرنگ) کرنے کی اہمیت سے انکار نہ کرتے ہوئے‘ حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ بعض کوائف (ڈیٹا) کو خفیہ یا محدود رکھے جو ملک اور اس کے شہریوں کی سلامتی کیلئے خطرے ہو سکتا ہے۔ ایسے کوائف (ڈیٹا) کا تعلق شہریوں کی آمدنی‘ دولت‘ طبی بیماریوں وغیرہ جیسی ذاتی معلومات‘ دفاعی خدمات‘ بین الاقوامی تعلقات‘ معاہدوں اور قانون سازی وغیرہ سے متعلق ہو سکتا ہے۔ یہ سبھی شعبے حساس سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات کو افشا نہیں کیا جاتا ہے‘ سوائے چند معاملات کے جبکہ ایسا کرنا کسی قانون کی طرف سے ضروری ہو۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق سرکاری اہلکاروں کو ٹیکس دہندگان کی تفصیلات ”رازداری کی خلاف ورزی کرنے“ کیلئے بجا طور پر سرزنش کی گئی جس سے متعلق جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ لکھا اور قانون (انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء) کے سیکشن 216 کا حوالہ دیا۔ اس عدالتی مشاہدے کے بعد اور ممکنہ جرمانے سے بچنے کیلئے مذکورہ شق کو فنانس (ضمنی) ایکٹ 2022ء کے تحت سیکشن 216(3) میں ایک اور شق ڈال کر سابقہ ترمیم کر دیا گیا۔ قومی احتساب آرڈیننس‘ 1999ء کے سیکشن پانچ کا سیکشن (ایم) جو کہ ”پبلک آفس ہولڈر“ کی تفصیلات بارے ہے سوال یہ ہے کہ قابل انکشاف اور ناقابل انکشاف معلومات کیا ہوں گی۔ جواب بالکل سیدھا اور سادہ ہے کہ آمدنی‘ اخراجات‘ اثاثہ جات اور واجبات کی تفصیلات۔ اب اس بات پر غور کیا جائے کہ تمام بیوروکریسی اور سرکاری اداروں کے ملازمین تنخواہ دار افراد ہیں‘ جن کے مقررہ پے سکیلز ہیں۔ اگر تفتیشی ایجنسیوں کے مطالبے پر تنخواہ دار پبلک آفس ہولڈرز کے اثاثوں کی تفصیلات شیئر کی جا سکتی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عوام کو بہرحال یہ جاننے کا حق ہے کہ اُن کے ٹیکسوں سے وصول ہونے والا پیسہ کہاں اور کس طرح خرچ ہو رہا ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حزئمہ بخاری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام