قرضہ جات: منڈلاتے خطرات

پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا آسان حل قرض کا حصول سمجھا جاتا ہے جو مستقبل کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ناکافی ہے۔ آئندہ مالی سال (2022-23ء) میں پاکستان کو کسی بیرونی ذریعے یا ذرائع سے 28 ارب روپے درکار ہوں گے۔ اگر ہم جاری مالی سال (2021-22ء) کے گزشتہ 7 ماہ کے اعدادوشمار (قومی اقتصادی کارکردگی) دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برآمدات کے مقابلے درآمدات زیادہ ہیں اور درآمدی ضروریات کیلئے پاکستان نے 28.8 ارب ڈالر ادا کئے۔ اِن ادائیگیوں کو قومی وسائل سے ادا کرتے ہوئے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں ’ڈیڑھ ارب ڈالر‘ کمی ہوئی ہے۔ سال 2018ء میں پاکستان کے ذمے کل بیرونی قرض کا حجم 130 ارب ڈالر تھا جو 41 مہینوں کے دوران 37فیصد بڑھا۔ سال 2018ء میں حکومت نے اپنی کل آمدنی کا 10.5فیصد بیرونی قرضہ جات کی واپسی پر خرچ کئے۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ سال 2022ء میں پاکستان کی کل آمدنی کا 38.9فیصد بیرونی قرضہ جات کی واپسی کی نذر ہو گا جو غیرپائیدار ہے کہ اگر قومی آمدنی کا قریب چالیس فیصد قرضوں کی ادائیگی میں دیا جائے گا تو باقی ماندہ وسائل ملک چلانے کیلئے کافی نہیں ہوں گے اور حکومت کو مزید قرض لینے پڑیں گے۔ پاکستان نے جن ذرائع سے قرض لیا ہے اُن میں 85فیصد ایسے ادارے ہیں جو یا تو امریکی ہیں یا وہ امریکہ کے زیراثر ہیں۔ امریکہ کے علاوہ پاکستان نے چین سے 18 ارب ڈالر بطور قرض لے رکھے ہیں۔ پاکستان کو رواں برس ماہ جون میں 1.8 ارب ڈالر مختلف اداروں کو ادا کرنے ہوں گے۔ اِس مالیاتی ذمہ داری کے ساتھ پاکستان کو 5.3 ارب ڈالر کمرشل بینکوں اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) جبکہ 1.3 ارب ڈالر دیگر قرضہ جات کی واپسی میں دینا ہوں گے۔ اِس طرح رواں مالی سال کے اختتام پر پاکستان کے ذمے مجموعی مالیاتی ذمہ داری 84.4 ارب ڈالر ہو گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کے دور (گزشتہ چار برس) کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضہ جات کے حجم میں 399 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے ذمے بڑھتا ہوا ”بیرونی قرض“ خطرے کی علامت ہے جسے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کہا جا سکتا ہے اور چونکہ پاکستان کا کوئی ایک بھی شعبہ بشمول ملکی دفاع کی ضروریات بھی قرضہ جات سے پوری ہو رہی ہیں تو قرضوں پر انحصار کی وجہ سے قومی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔ امریکی فوج کے آفیسر ایڈمرل مائیکل مولن (Michael Mullen) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”امریکی فوج جو طاقت‘ تعاون اور وسائل استعمال کر رہی ہے اُس کا براہئ راست تعلق ہماری قومی اقتصادیات کی صحت سے ہے۔“ اِس قول کے تناظر میں اگر پاکستان کی اقتصادیات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی بے تحاشا درآمدات کا حجم اِس کی برآمدات سے زیادہ ہے اور پاکستان  میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان سالانہ 25 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات‘ کوئلہ اور مائع گیس (LNG) درآمد کرتا ہے۔ سالانہ 25 ارب ڈالر مالیت کے خام مال درآمد کئے جاتے ہیں۔ سالانہ 13 ارب ڈالر کی مشینیں درآمد کی جاتی ہیں اور سالانہ 10 ارب ڈالر مالیت کی خوردنی اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ مختصر احوال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی درآمدات کم کرنا ہوں گی اور ایسا کرنے کے لئے 2 طریقے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہاں تیل و گیس کے موجود ذخائر سے حاصل ہونے والی پیداوار میں اضافہ کرے۔ تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت کرے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ کرے۔ امریکی توانائی کے ادارے (یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن EIA) کے مطابق ”پاکستان میں 9 ارب بیرل تیل موجود ہے۔“ اگر ہم پاکستان میں موجودہ تیل کی کھپت کے حساب سے اِس 9 ارب بیرل پیٹرولیم تک رسائی حاصل کر لیں تو یہ پاکستان کی آئندہ 50 سال کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوگا۔ امریکی ادارے ’EIA‘ کے مطابق ”پاکستان میں 105کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر ہیں۔“ اگر پاکستان میں گیس کی موجودہ کھپت کو مدنظر رکھتے ہوئے 105 کھرب کیوبک فٹ تک رسائی حاصل کی جائے تو یہ پاکستان کی 73 سالہ ضروریات کیلئے کافی ہوگی۔معیشت و اقتصادیات کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرنے‘ برآمدات میں اضافے اور مالیاتی خودمختاری حاصل کرنے کیلئے حکومت کو 4 اقدامات کرنا ہوں گے۔ 1: پاکستان کو تیل و گیس کی کھوج سے متعلق اپنی حکمت عملی (ہائیڈرو کاربن ایکسپلوریشن لائسینسنگ پالیسی) پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی تاکہ اِس شعبے میں سرمایہ کاری اور دلچسپی میں اضافہ کیا جا سکے۔ 2: پاکستان کو ایک آزاد و پیشہ ور نگران ادارہ قائم کرنا ہوگا۔ 3: پاکستان کو تیل و گیس کے قومی ذخائر کی کھوج اور انہیں نکالنے کیلئے اُوپن آرکئیج لائسنسنگ (Open Acreage Licensing) متعارف کرانا چاہئے اور 4: اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے جو غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اُسے تبدیل کرنے کیلئے آئینی ترمیم کرنی چاہئے۔ اِن چار اقدامات کے علاوہ پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور برآمدات میں اضافہ صرف اُسی صورت ہوگا جبکہ پاکستان میں پیداوار اِس کی مقامی ضروریات سے زیادہ اور عالمی معیار کے مطابق ہونے لگیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کو ایک ایسی اقتصادیات چاہئے جس میں پیداواری صنعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کے ماحول میں کام کریں جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پیداواری صنعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رکھا ہے اور یہ کارٹل (Cartel) کی طرح کام کرتے ہیں جیسا کہ ہمیں چینی‘ کھاد‘ بجلی کی پیداوار اور گاڑیوں کی صنعت میں دکھائی دیتا ہے کہ اِس میں صارفین کی بجائے اِن اداروں کے مفادات زیادہ محفوظ ہیں۔پاکستان کا خارجی قرض ملک کی خام قومی پیداوار (GDP) کا 40فیصد ہے۔ عالمی سطح پر اقتصادی جنگ کے ہتھیاروں کا رخ پاکستان کی جانب ہے اور پاکستان کے کلیدی مفادات کو خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان کو قرض دینے والے ممالک ملک کے سیاسی فیصلوں اور قومی ترجیحات پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور یہ خطرہ ماضی کے مقابلے آج کہیں گنا زیادہ ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)