صحت کے شعبے میں حکومت کی طرف سے اصلاحات اور کئی منصوبوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت نے اس بنیادی شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے اور اسے ترجیحی شعبوں میں شامل رکھاہے۔ صحت انصاف کارڈ اس حوالے سے ایک بے مثال منصوبہ ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ’صحت انصاف کارڈ‘ کی فراہم کی جانے والی سہولت ہر خاص و عام کے لئے ہے جبکہ اصولاً 10 لاکھ روپے تک کا بیمہ (انشورنس) صرف اُن افراد کی ہونی چاہئے تھی جو اپنا علاج معالجہ صرف اِس وجہ سے نہیں کروا سکتے کیونکہ اُن کے پاس مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس ’احساس پروگرام‘ کے تحت گھر گھر کے کوائف موجود ہیں اور اِسی کے تحت احساس کے مختلف پروگراموں میں کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی کفالت کی جاتی ہے جیسا کہ راشن پروگرام لیکن صحت انصاف کارڈ کے معاملے میں امیر و غریب کے درمیان فرق نہیں کیا گیا جبکہ ایسا کرنا ضروری تھا اور اِس سے ہونے والی بچت کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی امداد کے مزید منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایسے کئی لوگ ہیں جنہیں اپنے ملازمتی ادارے کی جانب سے بھی ’ہیلتھ انشورنس‘ حاصل ہے یا جو اپنے علاج معالجے کے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں مگر وہ بھی صحت کارڈ کے بدلے کسی نجی ہسپتال میں علاج کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ مفت کی چیز بھلا کون جانے دیتا ہے!اس طرح دیکھا جائے تو صحت انصاف کارڈ کو بہتر منصوبہ قرا ر دیا جاسکتا ہے تاہم اسے بہترین بھی بنایا جاسکتا ہے، یعنی اس میں اگر ایسا کوئی مکینزم متعارف ہو جس سے مستحقین اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں اور جو استطاعت رکھتے ہیں۔ ان کو اس سہولت سے باہر کرنے کے ذریعے جو بچت ہوتی ہے اس سے صحت سہولیات کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔کیونکہ صحت کارڈ کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر شخص اس کا اہل ہے لیکن یہی اس کا سب سے بڑا نقصان بھی ہے۔ اس کے تحت مستحق افراد کو ہدف بنانے کے بجائے ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔لائق توجہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے دیہات میں رہنے والوں سے زیادہ آگاہ اور چالاک ہوتے ہیں وہ ایسی تمام مراعات کا استعمال کرتے ہیں جو حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی ہے۔ اِس سلسلے میں یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن سے استفادے کے کوائف دیکھے جا سکتے ہیں‘ جس سے بڑے شہروں میں رہنے والے زیادہ تعداد میں فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ان تمام ضروریات کیلئے غریبوں کو پہلے سے موجود سرکاری ہسپتالوں کے وسائل پر منحصر رہنا ہوگا لیکن چونکہ وہاں بھی تمام انتظامی اور مالی توجہ صحت کارڈ پر مرکوز ہوگی اس وجہ سے وہاں کا انفرااسٹرکچر بھی ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکے گا۔ پاکستان میں ایک غریب خاندان شاید ہی کبھی ہسپتال میں علاج کرواتا ہو۔ بڑے شہروں میں صحت کی بہتر سہولیات مہنگی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ ابھی اس صحت کارڈ کی ابتدأ ہی ہے لیکن ہم ابھی سے اس کے غیر ضروری استعمال کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحت کی سہولیات اب اربوں روپے کی صنعت بن چکی ہے اور نجی ہسپتال اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یوں حکومت ان لوگوں پر بھی پیسہ خرچ کررہی ہوگی جنہیں ان بیماریوں کے لئے مالی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی کہ جن کا علاج بہت کم قیمت میں ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں جبکہ پنجاب میں قومی صحت کارڈ جاری کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے یہ بات فخریہ طور پر کہی گئی کہ ”پاکستان میں علاج معالجے کی سہولیات عالمی طاقت اور ترقی یافتہ ملک برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے ہیں جہاں اس طرح کے مفت علاج کی سہولت صرف سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ یہ ایک مثالی منصوبہ ہے تاہم اس کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سیّد سادات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام