ٹیکنالوجی: اختیاری فیصلے

دنیا سمٹ رہی ہے یا دنیا پھیل رہی ہے‘ اِس بات کا فیصلہ بھی ٹیکنالوجی ہی نے کرنا ہے کیونکہ آج ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس میں ٹیکنالوجی اور ’سائبر سپیس‘ روزمرہ معمولات زندگی سے لیکر خصوصی کام کاج کی ادائیگی تک نمایاں اور بڑا حصہ ادا کر رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دنیا نے ’کرپٹوکرنسی‘ جیسی نظر نہ آنے والی دولت بھی کھوج لی ہے‘ جس کی قبولیت‘ مقبولیت اور استعمال میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی تاریخ میں ماسوائے ٹیکنالوجی کسی دوسری چیز نے اتنی تیزی سے اپنی جگہ نہیں بنائی۔ اگرچہ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں خاص طور پر وہ لوگ کہ جن کی عمریں چالیس یا پچاس سال سے زیادہ ہیں اُنہیں ٹیکنالوجی کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر ’ورچوئل کرنسی‘ ہوتی کیا ہے اور یہ بغیر فزیکل بینک نوٹ یا سکے کے کس طرح کام کرتی ہے‘ کس طرح وجود میں آتی ہے اور اِس کے امور کی دیکھ بھال کون کرتا ہے۔ کرپٹوکرنسی سے متعلق اِس پورے ابہام کی سادہ سی وضاحت یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کرنسی ہے جو صرف انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے لیکن اِس کا استعمال کرتے ہوئے جدید ترین آسائشیں خریدی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کرپٹو کرنسی کو مرکزی بینک یا حکومت کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جاتا لیکن لوگوں کے ایسے گروپ ہوتے ہیں جن سے لین دین کی نگرانی کے لئے بے ترتیب طور پر کسی کو منتخب کیا جاتا ہے اور یہ چیک کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی مختلف ذرائع سے دو بار رقم حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا ہے۔ اگر یہی طریقہ عمومی کرنسی کے ساتھ کیا جائے تو پورا نظام ٹھپ ہو جائے۔ کرپٹو کرنسی کے معاملات وہ ماہرین دیکھتے ہیں جنہیں اِس پر اچھی طرح عبور حاصل ہے اور نوجوان خاص طور پر نیٹ پر خریدوفروخت یا جمع پونجی کے کھاتے (اکاؤنٹ) بنانے کے لئے تیزی سے کرپٹو کرنسی کا استعمال کر رہے ہیں۔ واقعی کوئی نہیں جانتا کہ بٹ کوائن کس نے ایجاد کیا‘ جو کہ سب سے مشہور کرپٹو کرنسی ہے لیکن عمومی خیال (تصور) یہی ہے کہ یہ ایک نامعلوم جاپانی کی اختراع ہے جس نے ’بٹ کوائن‘ کے نام سے اس سکے کو ایجاد کیا لیکن آج دنیا بھر میں بہت سی دیگر اقسام کی کرپٹو کرنسیز بھی ہیں اور ایل سلواڈور جیسے کچھ ممالک نے اسے قانونی کرنسی کے طور پر اپنا بھی لیا ہے۔ ایل سلواڈور کے لئے یہ اس حقیقت میں ایک بہت بڑا فائدہ دیتا ہے کہ ملک سے باہر سے ترسیلات زر زیادہ تیزی سے‘ زیادہ آسانی سے اور ٹرانزیکشن فیس کی شرائط میں کم کٹوتی کے ساتھ آ سکتی ہیں جیسا کہ ویسٹرن یونین جیسے اداروں کے ذریعے وصول کی جانے والے ترسیلات زر کی ایک خاص شرح فیس (قیمت) ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایسے ممالک بھی ہیں جن کی اقتصادیات کو کرپٹو کرنسی نے نقصان پہنچایا ہے‘ جیسا کہ ترکی کی مثال موجود ہے جس کی معیشت کا زوال بڑی حد تک کرپٹوکرنسی کی وجہ سے دیکھنے میں آیا۔ چین کا بھی یہی حال ہے‘ جس نے کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کرپٹو کرنسی ایکسچینج میں جانا اور کسی شخص کے اپنے نمبر یا کوڈ کے ذریعے چلائے جانے والے آن لائن اکاؤنٹ میں رقم جمع کر کے کرپٹو کرنسی خریدنا ممکن ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی پاکستانی روپے کے بدلے امریکی ڈالر خریدتا ہے لیکن پھر یقینا انہیں یا تو بینک اکاؤنٹ میں جمع رکھنا پڑتا ہے یا پھر کرنسی کو شاید تجوریوں میں رکھا جاتا ہے لیکن کرپٹو کرنسی کے ساتھ ایسا نہیں اور اگرچہ یہ ہمارے درمیان موجود ہے اور نظر نہیں آتی لیکن اِس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستان کے فیصلہ ساز الجھن اور تذبذب کا شکار ہیں کہ کرپٹو کرنسی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں کیا کیا جائے! خاص طور پر ایسی صورت حال میں جہاں اس قسم کی رقم کو دہشت گردی سمیت مجرمانہ کاروائیوں کے لئے استعمال کرنے کا امکان موجود ہے اور یقینی امر ہے کہ اس سے ”گرے (مشکوک) اکانومی“ میں اضافہ ہوگا جو پاکستان پر پہلے ہی ایک الزام ہے اُور اِس الزام سے چھٹکارا پانے کیلئے پاکستان فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی کڑی نگرانی کے مراحل سے گزر رہا ہے اور اِس کے سر پر اقتصادی پابندیوں کی تلوار بھی لٹک رہی ہے! بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے کرپٹو کرنسی کا مسئلہ دن بہ دن بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مدعی نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور عدالت کو مداخلت کرنے کا کہا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے احکامات جاری کرے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک ایسا کر چکے ہیں لیکن اقتصادیات کے ماہرین اور سائبر سیکورٹی سمیت قومی سلامتی کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھنے والوں کی جانب سے یہ سفارشات اور تجاویز سامنے آئی ہیں کہ پاکستان میں کرپٹوکرنسی پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے۔پاکستان کے لئے بھارت کی مثال موجود ہے جو سائبر ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کے مقابلے بڑا ہے لیکن اِس نے کرپٹوکرنسی کو قابل اعتبار نہ سمجھتے ہوئے اِسے تاحال ایک قومی کرنسی کے طور پر قبول نہیں کیا لیکن اِس نے تحقیق اور کرپٹوکرنسی کو مستقبل میں اپنانے کے عمل کا آغاز ضرور کر دیا ہے۔ پاکستان کو بھی کرپٹو کرنسی کے لین دین کو ریگولیٹ کرنے اور لوگوں کو اس کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں مدد کرنے کے لئے ایک نگران ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے‘ بجائے اس کے کہ کرنسی پر مکمل پابندی لگائی جائے جو کہ ہمارے فیصلہ سازوں کا عمومی ردعمل ہوتا ہے کہ جس چیز کی اُنہیں سمجھ نہیں آتی یا جو معاملہ اُن کی سمجھ سے بڑا ہوتا ہے وہ اُس پر پابندی عائد کر دیتے ہیں اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بلا شک و شبہ کریپٹو کرنسی روایتی بینکنگ سسٹم سے بہت مختلف ہے جس میں سٹیٹ بینک اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کتنی رقم شائع اور زیرگردش رکھی جائے اور وہ مالیاتی قواعد و ضوابط کی نگرانی بھی کرتا ہے جس میں لین دین کی نگرانی شامل ہوتی ہے تاکہ کوئی بھی شخص اپنے اکاؤنٹ سے ایک ہی رقم متعدد بار حاصل‘ وصول یا کسی کو منتقل نہ کر سکے یا دیگر وہ کرنسی کی لین دین میں بدعنوانی کا مرتکب نہ ہو۔ کریپٹو کرنسیوں کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے اور وہی ممالک اِس سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں گے جو اِسے سمجھنے اور اِسے رائج کرنے میں پہل کریں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمیلہ حیات۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)