امریکی صدر جو بائیڈن نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ میں منجمد کئے گئے افغانستان کے مرکزی (سنٹرل بینک) کی رقم کا نصف حصہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے متاثرین کے لواحقین میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ان افغانوں کو سزا دینے کے مترادف ہے جنہیں طویل امریکی جنگ نے تباہ کردیا ہے۔ بھوک سے مرتی آبادی سے اپنی عسکری شکست کا بدلہ لینے سے زیادہ سفاکانہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہ اقدام افغانستان کو معاشی تباہی کے قریب لے جائے گا‘ جس سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ بڑھتے ہوئے انسانی بحران نے پہلے ہی نوے فیصد سے زیادہ آبادی کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا‘ جس میں کہا گیا کہ امریکہ میں سات ارب ڈالر کے منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر ممکنہ طور پر گیارہ ستمبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میں تقسیم کئے جائیں گے جبکہ بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر افغانستان میں انسانی مدد کے لئے مختص ہوں گے یہ امدادی رقم اقوامِ متحدہ کے زیرِانتظام ٹرسٹ فنڈ میں رکھی جائے گی تاہم ان رقوم کی ادائیگی عدالتی فیصلے سے مشروط ہے۔ افغان سنٹرل بینک کے کل دس ارب ڈالر کے اثاثے بیرونِ ملک موجود ہیں جنہیں گزشتہ سال اگست میں ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد منجمد کردیا گیا تھا۔ ان اثاثوں میں سے سات ارب ڈالر کے اثاثے نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں موجود ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے ان فنڈز کو طالبان حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا کہ اس حکومت کو اب تک بین الاقوامی برادری نے قبول نہیں کیا ہے۔ معاشی پابندیوں نے افغانستان کے بینکاری نظام کو پہلے ہی تباہ کردیا ہے جس سے معاشی حالت مزید ابتر ہوچکی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے فیصلے کو جواز بنانے کے لئے گیارہ ستمبر حملوں میں متاثر ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے افغان فنڈز کو ضبط کرنے کیلئے دائر کئے گئے مقدمے میں زیرِ التوا ء عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں ایک قانونی سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکی حکومت کسی دوسرے ملک کے اثاثوں کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے یا نہیں؟ امریکہ کے اس اقدام پر فلاحی اداروں اور کئی معروف شخصیات کی جانب سے سخت تنقید ہوئی ہے‘گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کا ذمہ دار افغانوں کو کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اس وقت تو موجودہ افغانوں کی اکثریت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اور پھر یہ ملک بیس سال تک امریکی قبضے میں بھی تو رہا۔ امریکہ کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کی تقریباً چار کروڑ کی آبادی بھوک کا شکار ہے اور تقریباً دس لاکھ بچے سخت موسمی حالات اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں جب سے طالبان حکومت میں آئے ہیں‘ افغانستان کیلئے آنے والی تمام تر غیر ہنگامی امداد بند ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ بیس برس کی جنگ میں جتنی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ بھوک کی وجہ سے جاں بحق ہوسکتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو لوگ بھوک سے پچنے کے لئے اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ ماہ عالمی بینک سے کہا تھا کہ انسانی بحران پر قابو پانے اور معاشی تباہی کو روکنے کے لئے فوری طور ایک ارب بیس کروڑ ڈالر جاری کرے تاہم امریکہ نے پابندیوں میں نرمی کی بجائے افغانوں کو ان کے اثاثوں سے محروم کر کے ملک میں جاری بحران کو مزید سنگین بنادیا ہے کچھ بین الاقوامی انسانی امداد افغانستان پہنچنا شروع ہوگئی ہے لیکن اس سے افغانستان کا معاشی بحران حل نہیں ہوسکتا آنیوالے معاشی حالات انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے حالات مزید مشکل بنادیں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام