اگرچہ دنیاوی امور کو بنا کسی مذہبی عقیدے کے تابع بنانے والوں کی ایک تعداد پائی جاتی ہے لیکن دنیا کے کئی حصوں میں آج بھی مذہب ہی اہم سیاسی کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت دنیا کے ستائیس ممالک ایسے ہیں جہاں اسلام سرکاری مذہب ہے جبکہ تیرہ ممالک نے عیسائیت کو بطور ریاستی مذہب کے طور پر اپنا رکھا ہے‘ اِن میں 9 یورپی یونین کے ممالک ہیں اور دو دیگر ریاستوں نے بدھ مت اور ایک نے یہودیت کو سرکاری مذہب کے طور پر اپنایا ہے۔ ان 43 ممالک کے علاوہ جنہوں نے کسی نہ کسی مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر قبول کیا ہے تقریباً چالیس ایسے ممالک ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی مخصوص عقیدے کو سرکاری ادارہ جات کیلئے ترجیح بنایا ہے۔ یہ اعدادوشمار پیو ریسرچ سنٹر (Pew Research Center) نامی عالمی تحقیق کار ادارے نے مرتب کئے ہیں اور جب اِن اعدادوشمار کی روشنی میں افغانستان کے حکمراں طالبان کی جانب سے اِس اعلان کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ ”افغانستان میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی“ تو یہ کوئی غیر معمولی بات (بیان) نہیں ہے کیونکہ کئی دیگر ممالک بھی ایسا ہی کر رہے لیکن دنیا طالبان کے اعلان سے یوں ہی اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے اور عالمی برادری خدشات کا اظہار کرنے لگتی ہے تو اِس کی کیا وجہ ہے‘ اِس بارے بھی غور ہونا چاہئے۔ درحقیقت طالبان خالص اسلام چاہتے ہیں اور اُن کے ہاں اسلام کے سرکاری مذہب ہونے کا مطلب مذہب کے نام پر قومی وسائل کی لوٹ مار نہیں بلکہ انتہائی سخت گیر کی قسم کی خوداحتسابی ہے جس میں وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اور ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو ہر طرح کا ریاستی اسلام منظور ہے لیکن طالبان جس طرزحکمرانی کو قائم کرنا چاہتے ہیں‘ اُسے قابل قبول نہیں سمجھا جا رہا اور عالمی فیصلہ ساز نہیں چاہتے کہ اسلام نے جس حقیقی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیابی سے رائج ہو کیونکہ اگر ایک مرتبہ ایسا ہو گیا تو پھر طرزحکمرانی کے مغربی تصورات کی باطل اصلیت ظاہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ اسلام عدل و انصاف پر مبنی معاشرے اور خوداحتسابی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو جوابدہی کے مضبوط عقیدے کا نام ہے جس میں شخصیات نہیں بلکہ نظام کا تسلسل اہم ہوتا ہے اور نظام بھی ایسا کہ جس میں ترمیم کی ضرورت و گنجائش ہی نہیں۔ دنیا طالبان کے بارے میں خدشات رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ طالبان اُن کے تحفظات دور کریں جبکہ طالبان کو دنیا کے بارے میں خدشات و تحفظات ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ماسکو اور حال ہی میں ناروے میں یورپی یونین اور امریکہ کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران‘ طالبان نے ایسی ٹھوس ضمانتیں دینے سے گریز کیا ہے‘ جو اسلام سے متصادم ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب دنیا کے درجنوں ملک مذہبی شناخت کے ساتھ قائم ہیں اور کئی ممالک نے اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا ہے تو افغانستان سے دنیا کو کیا مسئلہ ہے۔ مثالوں میں جائے بغیر‘ یہ کہنا کافی ہوگا کہ سرکاری طور پر مذہب کی روشنی میں فیصلے کرنے والی ریاستوں کے ہاں عدل و انصاف کا معیار اور عوام سے برتاؤ کیا ہے۔ بہت سی ریاستیں اپنے آئین میں عوام کے مساوی سیاسی اور شہری حقوق تسلیم کرتی ہیں لیکن اِن کی عملاً ادائیگی نہیں کی جاتی۔ یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے پاس ایک مربوط آئین کی کمی ہے یعنی ایک ایسا آئین جو ریاست اور عوام کے درمیان تعلقات جیسی تفصیلات پر مبنی ہو اور حکومت اُس آئین کے مطابق فیصلے کرے لیکن ماضی کے طالبان کا موازنہ حال کے طالبان سے نہیں کرنا چاہئے اور اِس بات کو سمجھنا چاہئے کہ کس طرح اسلام کے شرعی اصول ہی کسی ملک کا آئین بھی ہو سکتے ہیں۔ کیا دنیا کے وہ معاشرے جو دیگر مذاہب کو سرکاری مذہب کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں‘ وہ اپنے ہاں نظریاتی و دیگر مخالفین سے تعصب کی بنیاد پر معاملہ نہیں کرتے؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر طالبان ایسا کیا کریں اور ایسا کونسا طرزحکمرانی اختیار کرنے کی ضمانت دیں کہ جس کا دنیا اعتبار کرے۔ اگر ہم اُن ممالک کا جائزہ لیں جہاں اسلام بطور ریاستی مذہب اختیار کیا گیا ماضی کی طرح اگست دوہزاراکیس میں برسراقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے افغانستان کا نام اسلامی امارات رکھا ہے اور اگر ہم عصری مسلم ممالک کو دیکھیں تو یہ نام (اسلامی امارات) بھی بذات خود کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تکنیکی طور پر کویت‘ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی اسلامی امارات ہی ہیں۔ طالبان نے وقتاً فوقتاً اشارہ دیا ہے کہ افغانستان میں ان کے زیر اقتدار نظام کیسا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک سینئر طالبان کمانڈر وحید اللہ ہاشمی نے الجزیرہ سے بات چیت میں کہا کہ حکومت کا نظام جمہوری نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانونی نظام کا تعین کرنے کے لئے علمائے کرام پر مبنی ایک کونسل ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ طالبان کے نظام ِحکومت کی اشکال واضح ہو جائیں گی لیکن جو ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان افغانستان میں کوئی بھی ایسا نظام رائج نہیں کریں گے جو عوام کی اکثریت کیلئے قابل قبول نہ ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان بھی بدل رہا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے تقاضے بھی یقینا پیش نظر رکھے جائیں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر امیر رضا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام