موٹرساز صنعتی اداروں کی نمائندہ تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں دسمبر کے مقابلے میں کاروں کی فروخت میں پچیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں پچاس فیصد سے زائد کاریں بینک سے قرض لے کر خریدی جاتی ہیں۔ اسی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کچھ ماہ قابل مقامی طور پر تیار ہونے والی اور درآمد شدہ گاڑیوں پر آٹو فنانسنگ کے قواعد و ضوابط میں سختی کر دی تھی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط کے تحت پارلیمان سے جنوری میں پاس ہونے والے منی بجٹ میں بھی کاروں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور اس پر دی جانے والی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ’پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن‘ کے مطابق موجودہ مالی سال کے سات ماہ میں کاروں کی فروخت میں اکسٹھ فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم جنوری کے مہینے میں دسمبر کے مقابلے میں پچیس فیصد کمی دیکھی گئی۔ پاکستان میں سوزوکی کی تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں دسمبر کے مقابلے جنوری میں بیالیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی جس میں کلٹس‘ آلٹو اور ویگن آر کی فروخت میں بالترتیب سترہ‘ اٹھاون اور چھیالیس فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح ہنڈا کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی۔ اس کمپنی کی تیار کردہ سٹی اور سوک ماڈل گاڑیوں کی فروخت میں دسمبر کے مقابلے جنوری کے مہینے میں سترہ فیصد کمی دیکھی گئی۔ ہنڈائی نشاط کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی جنوری میں کمی دیکھی گئی اور اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کمپنی کے زیر جائزہ مہینے میں فروخت بیس فیصد کم تھی۔ انڈس موٹرز کمپنی کی تیار کردہ کاروں کی فروخت میں کوئی کمی تو نہیں دیکھی گئی تاہم ان کی جنوری کے مہینے میں ہونے والی فروخت اتنی متاثر کن نہیں کیونکہ سات ماہ میں بیالیس فیصد زیادہ فروخت کرنے والی کمپنی نے دسمبر کے مقابلے جنوری کے مہینے میں صرف نو فیصد کاریں زیادہ فروخت کیں۔پاکستان میں کاروں کے شعبے میں بینکوں کی جانب سے دیئے جانے والے قرضہ جات پر مرکزی بینک نے چند ماہ پہلے قواعد و ضوابط سخت کر دیئے تھے جس کے تحت کار خریداری پر قرضے کی مدت سات سال سے پانچ سال کر دی گئی تو اس کے ساتھ ایک صارف کو آٹو فنانسگ کی مد میں دی جانے والی رقم کی حد تیس لاکھ کر دی گئی تھی۔ اسی طرح مرکزی بینک کی جانب سے ملک میں شرح سود میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ کورونا کی وجہ سے سات فیصد تک شرح سود تک گرانے کے بعد رواں مالی سال میں شرح سود میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا اور اب اس کی موجودہ شرح 9.75 فیصد ہے جسے صنعتی و تجارتی شعبوں کی جانب سے بہت زیادہ قرار دیا جا رہا ہے جو ان کے مطابق صنعتی شعبے میں شرح نمو کو متاثر کرے گا جس میں کاروں کا شعبہ بھی شامل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال دوہزاراکیس کے اختتام پر ”آٹو فناننسگ (گاڑیاں خریدنے کے لئے دیئے گئے ٹیکس)“کی مالیت 354ارب روپے تھی جو گذشتہ سال کے مقابلے 38فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان میں جنوری کے مہینے میں پیش ہونے والے منی بجٹ میں جہاں بہت سارے دیگر شعبوں میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا گیا تو اس کے ساتھ کاروں کی صنعت کو بھی دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کا ختم کر دی گئی‘ جن میں سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کیلئے فیدڑل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی۔ آٹو سیکٹر (شعبے) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوری میں کاروں کی فروخت میں آنے والی کمی کی وجہ کچھ اور ہے۔ مرکزی بینک اور حکومتی اقدامات کا اثر بھی آنے والے مہینوں میں اس شعبے پر پڑنے والا ہے تاہم جنوری کے مہینے میں فروخت میں ہونے والی کمی کی وجہ دسمبر کے مہینے میں ہونے والی فروخت میں بے پناہ اضافہ تھا اور جنوری میں اس کا بنیادی اثر دکھائی دیا۔ جنوری میں کاروں کی فروخت کی جو کمی ظاہر ہو رہی ہے وہ دسمبر میں کاروں کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ تھا۔ دسمبر کے مہینے میں کاروں کی زیادہ فروخت کی بھی وجہ تھی کہ لوگوں نے منی بجٹ سے پہلے کاروں کی ڈیلیوری جلدی کروائی۔ اِسی طرح دسمبر میں زیادہ فروخت کاروں کی زیادہ ڈیلیوری ہونے کی وجہ سے ہوئی اور جنوری میں دوبارہ وہ اپنی معمول کی سطح پر آ گئی جس کی ایک وجہ منی بجٹ سے پہلے ڈیلیوری حاصل کرنا تھا تاکہ اضافی ٹیکسوں سے بچا جا سکے۔ کاروں کی صنعت کے شعبے کے تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے مہینوں میں کاروں کی فروخت بلند شرح سود‘ سٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط اور منی بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ شرح سود میں اضافے کا اثر اس برس کی تیسری سہ ماہی میں نظر آئے گا کیونکہ پاکستان میں گاڑیوں کی بکنگ چھ سات ماہ پہلے ہوتی ہے۔ منی بجٹ میں ٹیکسوں میں ہونے والے اضافے کو بھی ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہے اور اس کا اثر بھی ایک دو سہ ماہی کے بعد نظر آئے گا اگر حکومت نے آئندہ وفاقی بجٹ میں اس پر نظر ثانی نہ کی۔ اپریل سے جون تک کاروں کی فروخت میں اضافہ نظر آ رہا ہے تاہم اس کے بعد ٹیکسوں کی وجہ سے کاروں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اور اس کے ساتھ آٹو فنانسگ کی نئی شرائط کاروں کی فروخت کو متاثر کر سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مقیم صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)