بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات میں دستاویزات کی تصدیق کے مراحل بھی شامل ہیں جنہیں اکثریت ’بھیانک تجربے‘ سے تعبیر کرتی ہے۔ تصدیق کا مذکورہ عمل انتہائی پریشان کن‘ مہنگا اور غیر منظم ہے جس کا حصہ بننے والوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا لیکن وہ مجبوراً اِس کا حصہ بن جاتے ہیں عموماً جن دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت پڑتی ہے ان میں شناخت کے ثبوت سے لے کر تعلیمی اسناد تک کئی دستاویزات شامل ہوتی ہیں جن کی نوکری یا امیگریشن یا کسی اور ضرورت کے تحت تصدیق کروانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔اگر کسی بیرون ملک پاکستانی نے شادی کی ہے کہ تو سب پہلے اُس کا واسطہ ’نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سے پڑے گا جہاں سے اُسے ’میرج رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ‘ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نکاح نامے سے تھوڑی مختلف چیز ہے۔ نادرا کے ایم آر سی کے حصول کے لئے نکاح نامہ ہونا لازمی ہے۔ نادرا سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لئے مقامی یونین کونسل کے دفتر جانا ہوتا ہے جو نکاح نامے کو رجسٹر کرتے ہیں جس کے بعد اس نکاح نامے کو نادرا میں جمع کروا کر ایم آر سی حاصل کیا جاسکتا ہے جس سے شادی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل میں چند ہفتے لگتے ہیں۔ نادرا سے ایم آر سی جاری ہونے کے بعد اسے اسلام آباد میں وزارت ِخارجہ کے دفتر یا پھر بڑے شہروں میں اس کے کیمپ آفس میں لے جانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی میاں بیوی میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ اس مرحلے پر ایک فارم پُر کرنا ہوتا ہے اور فیس جمع کروانی ہوتی ہے۔ یہاں عام طور پر ایک طویل انتظار ہوتا ہے حالانکہ دستاویز کی تصدیق وزارت ِخارجہ سے چند دنوں میں کردی جاتی ہے۔ وزارت کی جانب سے ایم آر سی کی تصدیق ہونے کے بعد اسے میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کی جانب سے متعلقہ سفارت خانے میں لے جایا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ کاغذی کاروائی اور بھاری فیس انتظار کررہی ہوتی ہے۔ سفارت خانے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق ہونے کے بعد اسے پاکستان سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے جہاں مزید تصدیق اور فیس کی ادائیگی کرکے سرٹیفیکیٹ کو پاکستان سے باہر استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر کسی کے خیال میں یہ تمام عمل صرف شادی سے متعلق دستاویزات کیلئے ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ درحقیقت تقریباً تمام ہی دستاویزات‘ چاہے وہ برتھ سرٹیفکیٹ ہو تعلیمی یا پروفیشنل اسناد ہوں یا پھر دیگر دستاویزات‘ انہیں بیرونِ ملک استعمال سے قبل بیوروکریسی کی اس بھول بھلیاں سے گزارنا ہوتا ہے۔ اس کے علاؤہ جب بھی میں کسی دوسرے ملک میں منتقل ہوتا ہوں تو مجھے ہر دستاویز کے لئے ان تمام مراحل سے پھر گزرنا پڑتا ہے۔ کئی برسوں تک لیگلائزیشن‘ اتھنٹیکیشن یا جسے پاکستان میں عموماً اٹیسٹیشن کہا جاتا ہے‘ بین الاقوامی سطح پر عوامی دستاویزات کی تصدیق کا روایتی طریقہ رہا ہے۔ کئی ممالک میں مقامی سرکاری دستاویزات کی تصدیق کو ضروری نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس کی بنیاد وہ قانونی ضابطہ ہے کہ دستاویزات خود اپنی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دستاویزات کو اصل ہی سمجھا جائے گا جب تک اس کے برعکس کوئی چیز ثابت نہ کردی جائے۔ جیسے جیسے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہوا ویسے ویسے قومی ریاستوں کو احساس ہوا کہ غیر ملکی دستاویزات پر اس مذکورہ قانونی اصول کا اطلاق کرنے سے ان دستاویزات کی اصلیت کا اندازہ لگانے والوں اور اس پر انحصار کرنے والوں پر غیر ضروری دباؤ پڑے گا۔ اس بات کو نامناسب سمجھا گیا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ غیر ملکی دستاویزات پیش کیے جائیں وہ صرف انہیں دیکھ کر ان کے اصل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں۔ اس وجہ سے قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک سست اور مہنگا طریقہ کار متعارف کروایا گیا جس میں مختلف مقامی محکموں اور سفارتی مشنز سے تصدیق کو شامل کیا گیا۔ غیر ملکی دستاویزات کی تصدیق کا یہ نظام پاکستان سمیت دیگر ممالک میں استعمال کیا جارہا ہے۔کونسل آف یورپ نے ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لا سے درخواست کی کہ دستاویزات کی تصدیق کے مسئلے پر غور کیا جائے اور ایک ڈرافٹ کنونشن تیار کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں 1961ء میں ہیگ کنونشن ابولشنگ دی ریکوائرمنٹ آف لیگلائزیشن آف فارن پبلک ڈاکومنٹس‘ نامی قانون سامنے آیا جسے ’اپوسٹائل کنونشن‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کنونشن کے تحت معاہدے میں شامل ممالک میں دستاویزات کی تصدیق اور لیگلائزیشن کے تقاضوں میں نرمی کی گئی۔ اس کے تحت اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ مقامی طور پر تصدیق شدہ (جو عمومی طور پر نوٹرائزیشن کی صورت میں ہوتی ہے) اور اپوسٹائلڈ دستاویزات کو معاہدے میں شامل دیگر ممالک میں بغیر لیگلائزیشن کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں دستاویزات کو سفارتی مشن تک لے جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہمارے خطے میں بھارت‘ عمان اور بحرین نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے۔ کچھ سال پہلے تک اس معاہدے میں ایک سو آٹھ ممالک شامل تھے جبکہ اب ان کی تعداد ایک سو اکیس ہوچکی ہے۔ معاہدے میں شامل قابلِ ذکر ممالک میں امریکہ‘ یورپی یونین کے ممالک‘ جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ پاکستان اپوسٹائل کنونشن کا رکن ملک نہیں یعنی پاکستانی دستاویزات کے یا پاکستان میں استعمال ہونے والے غیر ملکی دستاویزات کی تصدیق کیلئے بیوروکریسی کے کئی مراحل کو طے کرنا ہوگا۔ رقم خرچ کرنی ہوگی اور سب سے اہم یہ کہ انتظار کرنا ہوگا۔ عالمی ادارہ محنت کے مطابق ہمارے خطے میں سب سے زیادہ مزدور پاکستان سے ہی دیگر ممالک جاتے ہیں۔ دسمبر دوہزاراُنیس تک ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد پاکستانی باضابطہ طریقے سے ملازمت کیلئے پچاس سے زائد ممالک گئے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے کی توقع ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ کے مطابق عالمی نقل مکانی کے رجحانات نے آبادی میں اضافے کے اعداد و شمار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے (دوہزاراُنیس میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد ستائیس کروڑ بیس لاکھ کے قریب تھی جبکہ اس سے قبل دوہزاردس میں یہ بائیس کروڑ دس لاکھ تھی)۔ اگرچہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد خلیج تعاون تنظیم کے رکن ممالک کا رخ کرتی ہے تاہم ایک خاطر خواہ تعداد یورپ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا بھی جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس مسئلے سے دوچار ہے۔ تصدیق کا یہ عمل لوگوں کے علاوہ تجارت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ پاکستان کی پانچ بڑی برآمدی منڈیوں میں امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ یہ تینوں اپوسٹائل کنونشن کے رکن ہیں۔ دوسری طرف چین کنونشن کا فریق تو نہیں لیکن یہ معاہدہ ان دستاویزات پر لاگو ہوتا ہے جو ہانگ کانگ اور مکاؤ سے جاری ہوئے ہوں یا وہاں انہیں استعمال کرنا ہو۔ اگر پاکستان بھی مذکورہ کنونشن میں شامل ہوجاتا ہے تو کسی بھی رکن ملک کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات پاکستان میں اور پاکستان کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات کسی بھی رکن ملک میں قابلِ قبول ہوں گے۔ یوں تصدیق کے طویل مرحلے سے بچا جاسکے گا جس میں مختلف محکمے اور سفارتی مشن شامل ہوتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: علی نوید ارشد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام