کیا تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے؟ روسی صدر ولادیمیر پوتن مہینوں تک یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی سے انکار کرتے رہے لیکن تیئس فروری کو روس نے یوکرین کے ڈونباس خطے میں ’خصوصی فوجی کاروائی‘ کے ذریعے جنگ کا آغاز کر دیا جس کا اعلان روس کے ٹی وی پر کرنے کے بعد یوکرین کے دارالحکومت کیؤ اور دیگر علاقوں سے دھماکے اور ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ روس کی جانب سے یوکرین میں فوجی کاروائی کا قدم صدر پوتن کی جانب سے ’امن بحال رکھنے کی خاطر‘ یوکرین میں باغیوں کے زیرِ اثر دو مشرقی علاقوں میں فوج بھیجنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ روس نے گذشتہ چند ماہ کے دوران یوکرین کی سرحدوں پر کم از کم دو لاکھ فوجی تعینات کئے تھے اور اب یوکرین پر روس کے تازہ حملے کے بعد یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ قدم یورپ کے سکیورٹی ڈھانچے کو تار تار کر سکتا ہے اور اِس تناظر میں یہ سوال کثرت سے پوچھا جا رہا ہے کہ روس کی یوکرین میں حالیہ فوجی کاروائیاں‘ روسی رہنماؤں بیانات اور مغربی رہنماؤں کے جوابی بیانات اور روس پر پابندیوں کے اعلانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے لیکن برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن یہ براہ راست نیٹو اور روس کا جھگڑا نہیں ہے۔ درحقیقت جب امریکہ اور برطانیہ نے روس کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو یوکرین کی سرحد پر لانے کا عمل دیکھا تو اس پر مایوسی ظاہر کی اور دونوں ملکوں نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً وہاں سے نکال لیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے ابتد میں کہا تھا کہ ’عالمی جنگ تب ہو گی جب امریکی اور روسی فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہوں گے۔‘ صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا تھا کہ یوکرین میں صورتحال جیسی بھی ہو وہ امریکی فوجیوں کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں پریشان کن بات یہ ہوگی کہ روس کا اگلا قدم کیا ہو گا؟ روس یوکرین میں کہاں تک اپنی افواج کو بھیجنا چاہتا ہے‘ اس کا علم تو صدر پوتن اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ہی ہو گا لیکن نیٹو اور دیگر مغربی ممالک کے لئے سرخ لکیر عبور ہو چکی ہے۔ نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کسی رکن ریاست پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو نیٹو کے تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لئے آنا ہو گا اگرچہ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں البتہ چار ایسی ریاستیں نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں جو ماضی میں سوویت یونین کے وقت ماسکو کے دائرہ اثر میں تھیں۔ ان میں پولینڈ‘ ایسٹونیا‘ لٹویا اور لیتھونیا شامل ہیں۔ ماضی میں ماسکو کے دائرہئ اثر میں رہنے والے ممالک کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین تک محدود نہیں رہے گا اور وہ ان ممالک میں بسنے والے روسی نسل کے باشندوں کی مدد کے بہانے ان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے نیٹو نے حالیہ دنوں میں بالٹک ریاستوں میں اضافی فوجی تعینات کئے ہیں۔ جب تک روس اور نیٹو اتحاد کا براہ راست ٹکراؤ نہیں ہوتا تب تک دنیا کے لئے پریشانی کی ضرورت نہیں خواہ یوکرین میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اِس سے عالمی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن روس کی فوجی کاروائی کسی بھی طرح معمولی نہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ روس اور امریکہ کے پاس آٹھ ہزار قابلِ استعمال جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے لہٰذا خطرات اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ عالمی جنگ کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں استعمال ہونے والا لفظ ’میڈ (میوچلئی ایشورڈ ڈیسٹرکشن) یعنی جوہری ہتھیار کو پہلے استعمال کرنے والا اور جس پر جوہری ہتھیار استعمال ہوا ہو‘ دونوں کی مکمل تباہی یقینی ہے کا اصول آج بھی لاگو ہوتا ہے۔ برطانیہ کے فوجی ذرائع پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ صدر پوتن نیٹو پر حملہ نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ صرف یوکرین کو بیلاروس کی طرح ایک اطاعت گزار ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں۔ عام طور پر صدر پوتن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ والے شطرنج اور جوڈو کے کھلاڑی ہیں لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کے بقول اکیس فروری کے روز کی تقریر سے وہ ایک شاطر منصوبہ ساز سے زیادہ ایک بپھرے ہوئے آمر محسوس ہوئے۔ صدر پوتن نے نیٹو کو ایک ’برائی‘ قرار دیتے ہوئے دراصل یوکرین کو بتایا ہے کہ اس کے پاس روس سے علیحدہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے وجود کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سوچ پریشان کن ہے۔ برطانیہ وہ واحد ملک نہیں ہے جو روس کو سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اور جرمنی اس سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔ جرمنی نے روس سے آنے والی نارڈ سٹریم ٹو گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری کے عمل کو التوا میں ڈال دیا ہے لیکن برطانیہ روس پر پابندیاں لگانے پر زور دینے میں پیش پیش ہے۔ روس بھی کسی نہ کسی انداز میں اِن عالمی پابندیوں کا یقینا جواب دے گا۔ روس میں مغربی ممالک کے کاروبار متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اگر صدر پوتن فیصلہ کریں تو روس اس سے بہت آگے جا سکتا ہے۔ اِسی طرح نیشنل سائبر سکیورٹی سنٹر ’انتقامی کاروائی کے طور پر‘ سائبر حملوں کے خطرے سے خبردار کر چکا ہے۔ یہ حملے جن کا کسی کو مورد الزام ٹھہرانا مشکل ہوتا ہے‘ ان میں بینکوں‘ کاروبار‘ افراد اور اہم انفراسٹرکیچر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے برطانیہ اور روس کے تعلقات برسوں سے خراب چلے آ رہے ہیں جس کی وجوہات میں برطانوی سرزمین پر روس سے منحرف ہونے والے روسی شہریوں کو زہر دینا شامل ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یوکرین بحران کا ذمہ دار کون ہے اور کیا روس اپنے اہداف حاصل کر پائے گا جبکہ اُس کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ (بشکریہ: گارڈین۔ تحریر: پال کربی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام