یکساں نصاب تعلیم: تضادات و اقدامات

اُنیس سو تیس‘ الہ آباد میں خطاب کے دوران علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ’ایک مثالی ریاست‘ کا تصور پیش کیا جس کی ثقافت و سیاست کی خصوصیات الگ بیان کی گئیں۔ اس کے بعد 1947ء میں پاکستان بنا اور پہلی تعلیمی کانفرنس اس وقت کے وزیر تعلیم مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت ہوئی اور اِس اجلاس کے بعد 2 جلدوں میں تعلیمی پالیسی شائع کی گئی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تعلیمی نظام اور نصاب کے بارے میں بحث سے پہلے تعلیم کے مقصد کو سمجھا جائے۔ تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک شہری زندگی کی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا‘ جہالت کا خاتمہ‘ تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں دلچسپی و حوصلہ اَفزائی اور فیصلہ سازوں کو تیار کرنے کیلئے بااختیار بنانا ہے۔ اِس پورے عمل سے افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ یہ والدین‘ فلسفیوں‘ سیاست دانوں‘ ماہرین نفسیات، سائنسی اشرافیہ اور ہر سطح پر عوامی نمائندوں کا بھی اجتماعی فرض ہے کہ وہ ایک اچھے معیار کے تعلیمی نظام کی ترقی کے لئے کام کریں۔ ان سٹیک ہولڈرز کو تعلیم کے موجودہ معیارات کو حاصل کرنے کیلئے اجتماعی طور پر کام کرنا چاہئے جس کا مقصد مسابقتی بین الاقوامی اقتصادی منڈیوں سے فائدہ اٹھانا ہے اور ساتھ ہی ہماری سماجی اور شہری زندگی کے تئیں حساسیت کا تصور پیدا کرنا ہے۔ سنگل نیشنل کریکولم (ایس این سی) سے پہلے 1947ء سے 2017ء تک کم از کم سات نمایاں تعلیمی پالیسیاں تخلیق کی گئی ہیں جن کا مقصد پاکستان میں تعلیمی شعبے کے مسائل‘ خدشات اور درپیش چیلنجز حل کرنا ہے۔ ان اقدامات کا کلیدی زور تعلیم تک رسائی‘ تعلیمی معیار‘ تعلیم کے شعبے سے صنفی عدم مساوات کا خاتمہ‘ تعلیم سے متعلق انتظامی امور‘ سائنس ٹیکنالوجی‘ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر رہا۔ لیکن یہ سبھی تعلیمی پالیسیاں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اِن پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور شرح خواندگی سے متعلق غلط اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی گئی۔ تعلیم میں بہتری کا نظریہ بیان بازی کی حد تک ہے۔ تعلیم اور سیاست ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ سال دوہزاراٹھارہ میں نئی سیاسی حکومت کے قیام سے تعلیم کے شعبے میں نئی شروعات دیکھنے میں آئی۔ ریاست نے اِس بات کو ضروری سمجھا کہ مختلف سماجی طبقات کے درمیان خلیج کم کرنے کے لئے یکساں نصاب تعلیم متعارف کروایا جائے تاکہ کوئی بھی طبقہ دوسرے سے خود کو بالاتر یا الگ محسوس نہ کرے اور ایک نظام و نصاب ِتعلیم کے ثمرات معاشی و سماجی مواقعوں سے یکساں استفادے کی صورت ظاہر ہوں۔ تحریک انصاف نے برسراقتدار آنے کے بعد‘ شروع دن سے ’واحد قومی نصاب‘ کے حصول کا ہدف قائم کیا جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کسی بھی مالی یا سماجی طور پر کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کا کس قسم کے اداروں کا انتخاب کیا ہے۔ یکساں نصاب تعلیم میں دینی مدارس‘ سرکاری تعلیمی ادارے اور نجی ادارے شامل ہوں گے۔ واحد قومی نصاب اپنا مواد قرآن و سنت‘ بانی پاکستان قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات‘ پاکستان کے قوانین اور پالیسیوں‘ سائنسی و ریاضی کے مضامین‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ تجزیاتی مضامین سے اخذ کرے گا۔ جس میں تخلیقی قوت کو ابھارنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ واحد قومی نصاب کے قیام کا مقصد معاشرے کو طبقاتی نظام سے نجات دلانا ہے جو تعلیم کے شعبے کے ساتھ موجود تھا اور اس کی جگہ ایک ایسا نظام لانا ہے جو سب کے لئے قابل رسائی بھی ہو اور جس سے طبقات سے قطع نظر یکساں سلوک اور مواقعوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ماضی میں تعلیم حکومتوں کیلئے ترجیحی شعبہ نہیں رہا اور وہ تعلیم کیلئے ناکافی ترقیاتی بجٹ مختص کرتی رہیں۔ خاص طور پر سرکاری تعلیمی اداروں میں جو سہولیات فراہم کی گئیں وہ ناقص رہیں جس کی وجہ سے سرکاری ادارے بدنام ہوئے۔ خستہ حال عمارتیں‘ غیر تربیت یافتہ اساتذہ‘ پینے کے پانی کا فقدان‘ کھیلوں کے ناکارہ میدان اور اساتذہ کی کمی کم و بیش سبھی سرکاری تعلیمی اداروں کی ایک جیسی کہانی بیان کرتی ہیں۔ پاکستان میں معیاری تعلیم کا مطلب نجی ادارے ہیں اور آبادی کا بہت ہی کم حصہ ایسا ہے جو اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں سے مستفید کراتا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت کس قدر ہے کہ ملک میں بیس لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘ بہت سے بچوں کیلئے نجی سکولوں میں جانا تو بہت دور کی بات بلکہ ایک خواب ہے۔ ایک ہی وقت میں متعدد تعلیمی نظاموں کو چلانے کے نتیجے میں سماجی تقسیم پیدا ہوئی ہے جسے تحریک انصاف حکومت یکساں نصاب کے ذریعے ختم کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ یکساں نصاب تعلیم پاکستان میں تعلیمی معیار میں بہتری کیلئے امید کی کرن ہے لیکن اسے بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے‘ خاص طور پر اس کے معیار کے بارے میں سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے کی کمی پائی جاتی ہے لیکن یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ پاکستان متعدد ثقافتوں اورزبانوں کا ملک ہے۔ ایک مثالی نصاب میں اکثریت کی بجائے تمام شہریوں کے تحفظات کو مدنظر رکھنا چاہئے اور اسے لوگوں پر پاپولسٹ نظریات کو مسلط کرنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف کیلئے یکساں نصاب پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے جملہ فریقین (تمام اسٹیک ہولڈرز) کو غیر جانبدار بنیادی اصولوں پر متفق کرنے کے لئے انہیں ایک میز پر لانا ضروری ہے۔ یکساں نصاب تعلیم کا تصور اور حکمت عملی اِس وقت ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے اور ماہرین اب بھی اسے مختلف سطحوں پر جامع طریقے سے نافذ کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ موقع ہے کہ فیصلہ ساز فرسودہ تدریسی طریقوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بھی غوروخوض کریں‘ جو پاکستان میں تعلیمی معیار کی گراوٹ کا بنیادی سبب ہے۔ نصاب کو معیاری بنانے کے ساتھ‘ معیاری تدریسی ماڈیولز پر انحصار دانشمندانہ اقدام ہوگا جو کہ پورے ملک میں اساتذہ کو تربیت دینے کیلئے استعمال کئے جاسکتے ہیں تاکہ معیاری تعلیم کا ہدف حاصل ہو اور یکساں نصاب تعلیم کے ثمرات ظاہر ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام بنیادی طور پر خامیوں کا شکار ہے۔ جس کی وجہ ماضی کے فیصلہ سازوں کی کمزور قوت ارادی رہی ہے جن کیلئے تعلیم تو اہم تھی لیکن نصاب نہیں اور اب جبکہ نصاب کو اہمیت دی جا رہی ہے تو تدریسی طریقوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر کم توجہ دی جا رہی ہے۔ یکساں نصاب تعلیم سے ”بہتری کی امید“ ہے کیونکہ یکساں نصاب تعلیم اُنہی اصولوں پر مبنی ہے‘ جن اصولوں پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مرحلہ فکر ہے کہ صرف اچھی تعلیمی پالیسی وضع کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اِسے نافذ کرنے کے مرحلے پر بھی خاطرخواہ ”خصوصی توجہ“ دی جائے گی اور سزا و جزا کے تصورات لاگو کئے جائیں گے اور صرف اِسی صورت تعلیم کے بین الاقوامی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: افتخار درانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)