دنیا کی مجموعی خام پیداوار میں روس (russia) کا حصہ قریب 3 فیصد ہے۔ روس کے مقابلے امریکہ کی معیشت 12 گنا زیادہ بڑی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کی معیشت بھی روس سے دوگنی ہے۔ جن دیگر ممالک کی معیشتیں روس سے بڑی ہیں اُن میں چین‘ جاپان‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ فرانس‘ برازیل اور کینیڈا شامل ہیں۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم روس کی عالمی معیشت میں شراکت داری دیکھتے ہیں تو یہ بہت کم ہے اور عالمی معاشی منظرنامے میں اگرچہ روس زیادہ قابل ذکر نہیں لیکن اِس کی اپنی ایک الگ اور خاص اہمیت ضرور ہے اور یہ خاصیت و اہمیت اِس کے ہاں ہونے والی تحقیق اور ایجادات کی وجہ سے ہے۔روس اپنے دفاع پر ہر سال62 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جو عالمی سطح پر دفاعی اخراجات میں قریب 3 فیصد بنتی ہے۔ روس کا اپنے دفاع پر خرچ کرنے والی رقم کس قدر کم ہے اِس کا اندازہ امریکہ کے دفاعی بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے جو سالانہ 778 ارب ڈالر یعنی روس سے 13 گنا زیادہ اپنی دفاعی ضروریات پر خرچ کرتا ہے۔
امریکہ پوری دنیا میں دفاعی اخراجات کے تناسب سے 39 فیصد خرچ کر رہا ہے اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سارے ممالک مجموعی طور پر اگر 100 روپے دفاع پر خرچ کر رہے ہیں تو اِس میں امریکہ کے 39 جبکہ روس کے 3 روپے شامل ہیں۔ معیشت کی طرح روس دفاعی اخراجات کے لحاظ سے بھی دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے اور ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روس کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کے عزائم نہیں رکھتا اور روس نے اپنے دفاع کو اپنی ضرورت کی حد تک محدود لیکن مستحکم بنا رکھا ہے۔ پاکستان اور روس کا موازنہ کریں تو پاکستان روس کو بمشکل ایک فیصد برآمدات کرتا ہے یعنی پاکستان سے اگر 100 برآمدات ہوتی ہیں تو اُن میں سے صرف ایک فیصد روس کو جاتی ہیں۔ روس پاکستان سے سالانہ 6کروڑ ڈالر مالیت کا سٹرس (citrus) فوڈز درآمد کرتا ہے جو تازہ پھل ہوتے ہیں۔ اِسی طرح 2 کروڑ ڈالر مالیت کا بنا سلا ہوا کپڑا درآمد کیا جاتا ہے اور سالانہ 1 کروڑ 70 لاکھ ڈالر مالیت کا چمڑہ یا چمڑے سے بنی ہوئی مصنوعات بھی پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی روس سے درآمدات کا تعلق ہے تو روس سے صفر اعشاریہ نو فیصد (ایک فیصد سے بھی کم) درآمدات روس سے کی جاتی ہیں۔ اِن برآمدات میں دالیں (28 کروڑ 70 لاکھ ڈالر)‘ سبزی (13 کروڑ 80 لاکھ ڈالر) اور ہر سال 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر مالیت کی ’ربڑ (rubber)‘ کی جاتی ہے۔ اِن اعدادوشمار کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ روس کی پاکستانی معیشت میں حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے اور پاکستان اپنی درآمدات یا برآمدات کے لحاظ سے روس پر زیادہ انحصار نہیں کرتا بس دونوں ممالک کے درمیان ایک رسمی سا تجارتی تعلق قائم ہے۔پاکستان کی معیشت ’عالمی مالیاتی ادارے (IMF)‘ کے چنگل میں ہے جو پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کے بارے میں فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ اثراندازی اِس حد تک وسیع ہے کہ اگر پاکستان میں کسی بھی چیز یا جنس کی قیمت میں کمی لانا ہوتی ہے تو بھی حکومت اِس بات کی پابند ہے اُور ’آئی ایم ایف‘ سے وعدہ کر چکی ہے کہ وہ اِس سے منظوری حاصل کرے گی جیسا کہ حال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا لیکن اِس کے بعد جب دوبارہ اضافے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو حکومت چاہتی ہے کہ وہ ’آئی ایم ایف‘ سے مذاکرات کر کے پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگا نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اُسے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا اور ملک میں مہنگائی کی شرح جو پہلے ہی بلند ہے وہ مزید بلند ہو جائے گی۔
رواں سال پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ متوقع ہے۔ تجارتی خسارے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی برآمدات کم ہیں لیکن درآمدات زیادہ ہیں اور پاکستان کو سال کے اختتام پر 40 ارب ڈالر جیسی بڑی رقم تجارتی خسارے کی مد میں برداشت کرنا پڑے گی۔ یہ خسارہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لئے بغیر ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان نے رواں سال 30 ارب ڈالر کمائے ہیں اور اگر آئی ایم ایف نہ ہو تو باقی ماندہ رقم کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف کے فیصلہ سازوں میں روس بھی شامل ہے جس کے آئی ایم ایف میں 2.59 فیصد ووٹ ہیں جبکہ امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ اور اٹلی (امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک) کے ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلوں میں ووٹوں کا مجموعی تناسب 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو روس کی پاکستان کیلئے کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کہ روس ہمیں ’آئی ایم ایف‘ سے قرض کی واپسی میں رعایت دلوانے یا مزید قرض لینے میں آسانیاں فراہم کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں کرسکتا۔ روس پاکستان کیلئے صرف ایک محاذ پر مددگار ثابت ہو سکتا ہے جو ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)‘ کا ہے جہاں روس اِس 37 رکنی ’ایف اے ٹی ایف‘ نامی تنظیم کا رکن ہے اور روس کی رائے چونکہ ایشیائی ممالک سے متعلق ہوتی ہے اِس لئے پاکستان کے حق میں روس کی رائے (ووٹ) پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ 130 ارب ڈالر ہے۔ اِس قرض کا آٹھ فیصد ’پیرس کلب‘ سے حاصل کیاگیا ہے۔ ’پیرس کلب‘ نامی 22 رکنی تنظیم میں روس شامل ہے۔ 30 جون 2021ء تک روس نے 6 کروڑ 80 لاکھ (68ملین) ڈالر کا قرض حاصل کیا ہے جو اِس کے حاصل کردہ قرضوں کا بمشکل 0.05 فیصد ہے۔ روس ہر سال 123 ارب ڈالر کا خام تیل‘ 17 ارب ڈالر کا کوئلہ‘ 8 ارب ڈالر کی گندم درآمد کرتا ہے۔
روس کی سب سے زیادہ برآمدات چین کو جاتی ہیں جو 58 ارب ڈالر ہیں۔ چین کے بعد سب سے زیادہ برآمدات ہالینڈ (42 ارب ڈالر)‘ بیلاروس (20 ارب ڈالر)‘ جرمنی (19ارب ڈالر) اور اٹلی (17 ارب ڈالر) ہیں۔ مغربی یورپ کے ممالک روس سے 25 فیصد تیل اور 40فیصد گیس درآمدات کرتے ہیں یعنی مغربی یورپی ممالک کی توانائی کا انحصار روس پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ روس کا مغربی یورپی ممالک پر سیاسی اثرورسوخ بھی دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)