یوکرین بحران کے باعث اب پورے یورپ میں طویل مدتی عدم استحکام اور افراتفری کے خطرات بڑھ چکے ہیں۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی سفارت کاری کے ناکام ہوجانے پر حالات نے اس وقت ایک اہم موڑ لیا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے روسی افواج کو مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ دو علاقوں میں داخل ہونے کا حکم دیا اور انہیں آزاد علاقوں کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد صدر پیوٹن نے بین الاقوامی قوانین کی نفی کرتے ہوئے یوکرین پر باقاعدہ حملے کا آغاز کردیا۔ یوں ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے۔ امریکہ کی زیرِ قیادت مغربی برادری نے روس کے اس قدم پر فوری ردِعمل دیا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس کے اقدامات کی شدید مذمت کی گئی۔ یوکرینی صدر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس پر جنگ روکنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر پیوٹن کو جارح قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس جنگ کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ دیگر کئی ممالک کی جانب سے بھی تناؤ میں کمی لانے کے مطالبات کئے گئے ہیں۔
صدر پیوٹن کی جانب سے جاری عسکری کاروائی کا جواز ڈونباس میں روسی زبان بولنے والوں کی حفاظت سے آگے بڑھ چکا ہے۔ روس نے اب جواز کے طور پر کہا ہے کہ یہ قدم ’یوکرین سے روس کے دفاع‘ کیلئے اٹھایا ہے انہوں نے الزام عائد کیا کہ مغربی دنیا یوکرین کو روس کے خلاف ایک آلے کے طور استعمال کر رہی ہے۔ اس بحران سے قبل کئی ماہ تک یوکرین کی سرحد پر روس فوج جمع کررہا تھا۔ فرانسیسی صدر ایمینیول میکرون اور جرمن چانسلر اولاف اسکولز کی جانب سے سفارتی کوششوں کے باوجود سلامتی سے متعلق روس کے مطالبات پورے نہ ہوسکے۔ روس کے مطالبات میں ان باتوں کا وعدہ بھی شامل تھا کہ یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل نہیں ہوگا۔
یوکرین میں سٹریٹیجک ہتھیاروں کو نصب نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ یوکرین اور نیٹو اُنیس سو ستانوے سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جائیں گے۔ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ان مطالبات کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی حملے کے جواب سے مغرب کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں پیوٹن پر پیچھے ہٹنے کیلئے دباؤ ڈالیں گی یا نہیں لیکن اس بارے میں غور کرنے سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ آٹھ سال قبل کیا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیوٹن کا حالیہ قدم دوہزارچودہ کے ان حالات کا ہی تسلسل ہے جس کے نتیجے میں روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا۔ واقعات کے اس تسلسل کا آغاز ماسکو نواز یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ کی بے دخلی سے ہوا۔ انہوں نے یورپی یونین کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے کو مسترد کردیا تھا۔ یوں مغرب کی حمایت سے ہونے والے ایک عوامی احتجاج کے نتیجے میں انہیں بے دخل کردیا گیا۔ امریکی حکام اور سیاستدان بھی کھلے عام ان مظاہروں کا حصہ بنے۔ ماسکو نے اس پر سخت ردِعمل دیا اور چند ہی ہفتوں بعد نہ صرف یوکرین پر حملہ کرکے کریمیا پر قبضہ کرلیا بلکہ مشرقی یوکرین میں روس کے حامی باغیوں کی حمایت کی بعدازاں پیوٹن نے الزام عائد کیا تھا کہ دوہزارچودہ میں یوکرین میں ہونے والی ’بغاوت‘ کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ڈونباس میں لڑائی ختم کرنے کیلئے دوہزارچودہ میں ”مِنسک ون“ نامی جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا لیکن وہ برقرار نہیں رہ سکا۔ اس کے بعد فرانس اور جرمنی کی ثالثی میں دوہزارپندرہ میں ”مِنسک ٹو“ معاہدہ ہوا۔ اس میں یوکرین کی جانب سے آئینی ترامیم بھی شامل تھیں تاکہ ڈونباس کے ان علاقوں کو مکمل خودمختاری اور ’خصوصی حیثیت‘ دی جائے جہاں روسی زبان بولی جاتی ہے۔
دوہزارچودہ میں ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ ’مسئلے کی اصل جڑ‘ یہ ہے کہ ’یوکرینی سیاستدان ملک کے ایسے علاقوں پر بھی اپنی مرضی نافذ کرنا چاہتے ہیں جو ریاست کے طابع نہیں رہنا چاہتے اور یہ کام ایک ایسے ملک میں کیا جارہا ہے جہاں کئی زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔‘روس پر لگنے والی موجودہ مغربی پابندیوں کا مقصد اس کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔ ان پابندیوں میں بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹس تک روس کی رسائی کو محدود کرنا اور اس کے بیرون ملک موجود اثاثوں کو منجمد کرنا بھی شامل ہے۔ روسی حکام نے ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے یاد دلوایا ہے کہ ان کے ملک نے طویل عرصے تک مغربی پابندیوں کا سامنا کیا ہے۔ پیوٹن نے زرِ مبادلہ کے ذخائر (چھ سو تیس ارب ڈالر) بڑھا کر اور دیگر اقدامات اٹھا کر ملکی معیشت کو پابندیوں کے اثرات سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ روس یورپ میں تیل اور گیس پیدا کرنے والا اور اہم خام مال برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس بھی یورپ کو معاشی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کیا اس بحران کے حل کے لئے سفارتی اقدامات کی کوئی گنجائش بنتی ہے؟ فی الوقت تو سفارتی کوششوں کا بار آور ثابت ہونا مشکل ہے۔ روسی افواج کیف پر قبضہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور مغرب کی جانب سے مزید پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جس کی وجہ سے سفارت کاری کا دروازہ اب بند ہوچکا ہے۔ روس کی جانب سے یوکرین کو اس شرط پر مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے کہ یوکرینی فوجیں ہتھیار ڈال دیں۔
تباہ حال یوکرینی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کے حوالے سے غیر جانبدار حیثیت پر روس سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن شاید اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر پیوٹن پہلے یوکرین پر عسکری طور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور پھر وہاں نئی حکومت لانا چاہتے ہیں۔ جب اور اگر فوجی جبر کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرلیا جاتا ہے تو پھر مغرب کے ساتھ یورپ کے سکیورٹی ڈھانچے میں تبدیلی بشمول مشرقی یورپ میں نیٹو کی موجودگی پر مذاکرات کئے جاسکتے ہیں۔ اس منصوبے کا دار و مدار روس کی دور اندیشی پر ہے کہ مغرب پابندیوں سے بڑھ کر اور کیا کرسکتا ہے۔ بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)