دیکھئے کہ کس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1962ء میں‘ آج سے ٹھیک 60 سال قبل کیوبا میزائل کرائسیز رونما ہوا تھا جس نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا۔ اُس وقت جنگ عظیم دوم میں استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریاں ابھی ذہن سے محو نہیں ہوئی تھیں اور یہی وجہ رہی کہ امریکی صدر کنیڈی اور روسی صدخروشیف نے جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور سرد دماغ سے سوچا لیکن اِس مرتبہ صورتحال مختلف ہے اگر یوکرین یورپی یونین یا نیٹو ممالک میں شامل ہو جاتا ہے تو امریکہ کو موقع مل جائے گا کہ وہ روس کی سرحد پر میزائل (دفاعی آلات) نصب کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو یوکرائن کی یورپی یونین میں شمولیت پر اعتراض ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کا دفاع متاثر ہوگا۔
بحر اوقیانوس کے دونوں جانب فوجی صنعتی کمپلیکس ہیں جن سے پہلے ہی روس کو خطرہ ہے۔ یورپ اور امریکہ نے نیٹو کی مشرقی سرحد پر ہتھیاروں کی تعیناتی کا اعلان کر رکھا ہے اور پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ نیٹو ممالک کا چالیس ہزار فوجیوں پر مشتمل کثیر القومی نیٹو رسپانس فورس کے دستوں کو یوکرین پر روس کے حملے کے جواب میں دفاعی اقدام کے طور پر فعال کیا گیا ہے۔ امریکہ کے تقریباً نوے ہزار فوجی یورپ میں ہیں اور کئی ہفتوں سے پینٹاگون انہیں مشرقی یورپ کے سابق سوویت بلاک کی ریاستوں میں تعینات کر رہا ہے۔ امریکہ کے دفاعی مرکز ’پینٹاگون‘ کا کہنا ہے کہ اِن دستوں کی نقل و حرکت عارضی اور دفاعی ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ نہ تو دفاعی حرکت ہے اور نہ ہی عارضی۔ یوکرین میں روسی حملوں کی بنیاد پر‘ امریکہ برسوں تک اپنی افواج یہاں تعینات رکھ کر سکے گا۔ یوکرین بحران سے ماسکو اور واشنگٹن دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن یورپ کو نہیں‘ جو کچھ سالوں سے توانائی کے مسلسل بڑھتے ہوئے بحران کا شکار ہے۔ روسی افواج کے یوکرین میں داخل ہوتے ہی گیس کی قیمتوں میں تیس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
روس یوکرائن بحران کا ایک اور فاتح ملک چین ہے۔ اگر روسی حملہ یوکرین میں حکومت کی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو چین کے پاس تائیوان کے معاملے میں ایسا ہی کرنے کا جواز اور مثال ہاتھ آ جائیں گے‘ جسے چین کو کچھ عرصے سے تلاش تھی۔اُنیس سو باسٹھ کے کیوبا بحران بھی بہانہ تھا۔ وسیع البنیاد نظریہ کہتا ہے کہ امریکہ کی ’سیاست‘ میں بیرونی طاقتوں کی کسی بھی قسم کی مداخلت امریکہ کے خلاف ممکنہ عمل تصور کی جاتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اِس سے امریکہ کو بنیادی طور پر دنیا میں کہیں بھی مداخلت کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اگر امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہوں جیسا کہ اس نے عراق اور افغانستان میں کیا تھا تو وہ فوج کشی سے دریغ نہیں کرتا۔ ماسکو امریکہ کی ذہنیت اور توسیع پسندانہ عزائم سے واقف ہے۔ روس کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اِس کی اپنی ہی زمین اِس کیلئے تنگ ہو جائے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ روس یوکرین پر قبضہ بھی نہیں چاہتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ یوکرائن میں ماسکو نواز حکومت ہونی چاہئے۔ جیسے ہی ماسکو کو اِس بات کی یقین دہانی مل جاتی ہے وہ جنگ بندی سمیت ہر وہ اقدام کرے گا جس کی یوکرائن کو خواہش ہوگی۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: منزہ صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)