پاکستان میں ہونے والی اموات میں ایک بڑی تعداد ایسی اموات کی بھی ہے جو غیر ضروری طور پر اور معمولی باتوں پر ہو رہی ہیں اور اِس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسی اموات کے بارے میں جو پہلے کبھی کبھار خبریں سننے میں آتی تھیں‘ اب یہ سانحات زیادہ شرح سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک بدلا ہوا معاشرتی رجحان ہے جس میں گزشتہ دہائی میں یا شاید اِس سے تھوڑا زیادہ عرصے میں نوٹ کیا گیا ہے۔ کراچی میں چند روز قبل ایک نوجوان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ راہزنوں نے اس سے قیمتی موبائل فون بھی چھین لیا تھا۔ اٹھارہ سالہ مذکورہ نوجوان نے مزاحمت بھی نہیں کی تھی اور راہزن آسانی سے صرف فون لے کر فرار ہو سکتا تھا لیکن اُس نے موبائل فون سے زیادہ قیمتی انسانی جان بھی لے لیا‘ جسے لینے کا اُس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ کراچی میں عمومی جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ جرائم اب ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ چند ہفتے قبل کراچی کی ’سپر مارکیٹ‘ میں چوری کے دوران ایک جوڑے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اِس جوڑے نے بھی رہزانی کے دوران مزاحمت نہیں کی تھی۔ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہم اِن حالات یا صورت ِحالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ پاکستان میں اگر جرائم کی صورت افراتفری پھیلی ہے تو کیا اِس حالت کو اِس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں سے بھی اِس قسم کے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جرائم کی خاطرخواہ سزائیں عام نہیں۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ”سٹریٹ کرائمز رونما ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب لوگوں کی زندگیاں مشکل ہوں گی اور ان کے پاس زندہ رہنے کیلئے خوراک نہیں ہوگی تو وہ مجبوراً جرائم کی راہ پر چل نکلیں گے۔“ اگرچہ ملک کے سب سے بڑے کاروباری شہر کراچی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کوئی منطقی عذر نہیں ہے لیکن بہرحال بڑھتی ہوئی غربت اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی خریداری میں دشواری بہت سنگین مسئلہ ہے اور فیصلہ سازوں کو اِس مسئلے سے پیدا ہونے والے مسائل و جرائم پر غور کرنا چاہئے۔یہ سچ ہے پاکستان میں لوگوں کے معاشی حالات خاصے مشکل ہیں اور یہ کہ غربت کی سطح کہیں زیادہ بلندی تک جا پہنچی ہے اور اس سے کہیں زیادہ گہرائی تک زمین میں پیوست ہے۔ اسلام آباد کی سیشنز عدالت نے ’نورمقدم قتل کیس‘ میں ملزم ظاہر جعفر کے خلاف سزائے موت فیصلہ دیا لیکن اِس سزا سے نور یقینا واپس نہیں آئے گی۔ وہ ستائیس سالہ لڑکی یا نوجوان عورت جسے جاننے والوں میں سے اکثر اُسے ایک مہربان‘ شفیق‘ محبت کرنے والی شخصیت قرار دیتے تھے‘ ہم سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکی ہے اور اُسے بھی بغیر کسی وجہ کے قتل کیا گیا۔ اِسی نوعیت کے اور بھی کئی واقعات ہیں۔
باالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی اپنی تمام تر اہمیت کھو چکی ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس تمام صورتحال کی ذمہ داری مجموعی طور پر تمام معاشرے پر عائد ہوتی ہے یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم پر توجہ تو دی جاتی ہے تاہم تربیت وہ شعبہ ہے جس کی ذمہ داری نہ افراد اٹھانے کے لئے تیار ہیں اور نہ معاشرہ۔ ایسے میں جرائم کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا تو اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف تو معاشی مسائل ہیں تاہم دوسری طرف یہ تربیت بھی کسی کو نہ دی گئی ہو کہ تمام مشکلات اور مصائب کے باوجود اخلاق کا دامن سے نہیں جانے دینا چاہئے اور قانون کی بالادستی کو ہر صورت میں مقدم رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے یہی وہ کمی ہے جس نے معاشرے کو غیر محفوظ بنایا ہے اور اس میں معاشی وجوہات کے ساتھ ساتھ اخلاقی وجوہات سرفہرست ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)