East Asia's inclusive growth model
اُنیس سو اَسی میں‘ چین کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا تھا جس کی اَسی فیصد آبادی کی آمدنی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم تھی اور صرف ایک تہائی چین کے بالغ افراد پڑھ یا لکھ سکتے ہیں۔ تب چین کی فی کس آمدنی بھارت کے برابر تھی۔ سال دوہزاربیس تک‘ چین میں غریبوں کا تناسب (یومیہ ایک ڈالر سے کم آمدنی رکھنے والوں کی تعداد) کم ہو کر قریب سولہ فیصد رہ گئی۔ دوہزارآٹھ اور دوہزاراٹھارہ کے درمیان‘ چین کی جی ڈی پی چار اعشاریہ چھ کھرب ڈالر سے اٹھارہ کھرب ڈالر تک چار گنا بڑھ کر اسے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بناتی ہے (ڈالر برائے نام کے لحاظ سے) اور آج اس کا فی کس دس ہزار ڈالر بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ زیادہ قابل ذکر سات سو ملین (ستر کروڑ) آبادی کو غربت سے نکالنے میں چین کی کامیابی ہے جس میں پچاس کروڑ افراد کا تعلق چین کے متوسط طبقے سے ہے جو ایک خاص طرز زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ چین آج دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے جس کے پاس دنیا میں تین اعشاریہ دو کھرب ڈالر کے سب سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں‘ جو اِس کی تیرہ ماہ کی درآمدات کی ضروریات کے برابر (یا تیرہ ماہ کی درآمدی ضروریات کے لئے کافی) ہیں۔ اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں کوریا اور پاکستان کی فی کس آمدنی ایک سو ڈالر تھی۔ ساٹھ ہی کی دہائی کے آخر میں ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان کی برآمدات انڈونیشیا‘ ملائیشیاء‘ تھائی لینڈ اور فلپائن کی مجموعی برآمدات سے زیادہ تھیں۔ ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں عملی طور پر کوئی انتہائی غربت یا اعتدال پسند غربت نہیں ہے۔ انڈونیشیا کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت سے نیچے ہے۔ جنگ سے تباہ حال ویت نام اُنیس سو پچاسی اور دوہزاربیس کے درمیان برآمدات کے ساتھ اپنی اوسط فی کس آمدنی میں بارہ گنا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا۔ جہاں برطانیہ کو اپنی فی کس آمدنی کو دوگنا کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ گئی اور امریکہ کو پچاس سال لگے‘ وہیں آسیان کے تین ممالک میں سے بیشتر (آسیان جاپان‘ چین اور کوریا) نے نصف صدی سے بھی کم عرصے میں یہ ہدف حاصل کر لیا۔ جاپان نے چالیس سال میں‘ کوریا نے پچیس سال میں اور چین نے دس سال میں یہ کام کیا۔ مشرقی ایشیائی معیشتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے اور وہ کون کون سے اسباق ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے پائیدار اور جامع ترقی حاصل کی جانی چاہئے بالخصوص متوسط آمدنی رکھنے والے طبقے کی ضروریات کا پہلے خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے ترقی‘ شمولیت اور پائیداری کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ روایتی حکمت عمل جس نے مرکزی دھارے کے ماہرین اقتصادیات اور پالیسی سازوں کی سوچ پر غلبہ حاصل کیا کہ تیز رفتار ترقی‘ عوامی شمولیت اور پائیداری جیسے اہداف کے بغیر ممکن ہے۔ مشرقی ایشیائی معیشتوں کے پچاس سال کے تجربات کو دیکھا جائے تو اِس عرصے میں نہ صرف فی کس آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ تقریباً ایک ارب لوگوں کو غربت سے نکالا گیا اور ترقی کے فوائد کو وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا۔ اُنیس سو نوے سے دوہزارپانچ کے درمیانی عرصے میں‘ انتہائی غربت کی شرح میں قریب دو تہائی کمی واقع ہوئی کیونکہ اِس عرصے کے دوران فی کس آمدنی دو سے چار فیصد سالانہ تک بڑھ گئی۔ سماجی نقل و حرکت اور مواقعوں کی مساوات نے صنف‘ جغرافیہ‘ نسلی اور خاندانی پس منظر کے درمیان عدم مساوات کو کم کیا۔ اقتصادیات میں دوہزاراکیس کا نوبل انعام اُن محققین کو دیا گیا جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ زیادہ یا کم از کم اجرت کا نتیجہ بے روزگاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ترقی اور شمولیت کے درمیان ربط اچھے معاوضے والی پیداواری ملازمتوں کے ذریعے قائم ہوتا ہے جس سے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تجرباتی ثبوت غیر مبہم ہیں کہ ترقی اور غربت میں کمی کا باہمی تعلق ہے۔ قدرتی سرمائے کا تحفظ اور آب و ہوا کے خطرات کم کرنے کو ترقی کی حکمت ِعملیوں میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ترقی کے عمل کو تیز کرتی ہے۔ بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں خصوصی (ای ایس جی) فنڈز اور گرین بانڈز کی مقبولیت اس ترجیحی ترقی کی حکمت عملی کے لازم حصے کے طور پر شمولیت اور پائیداری کو تسلیم کرتی ہے اور اِس تجربے کی عینی شاہد (گواہ) ہے۔ دوسرا اِس میں حکومت کا کردار بصورت ترجیحات بھی شامل ہوتا ہے۔ مشرقی ایشیائی ممالک میں حکومت کا کردار معاشی ترقی اور ترقی کو فروغ دینے میں نجی شعبے کی سہولت‘ رہنمائی اور مدد رہا ہے۔ میکرو اکنامک استحکام برقرار رکھتے ہوئے‘ طویل المدتی ویژن اور سٹریٹجک سمت کا تعین کرکے اور مستقل و متوقع پالیسیوں پر عمل کرکے‘ ان ممالک کی حکومتوں نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا۔ سیاسی‘ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نے مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا ہے‘ جس سے وہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی و کاروباری ماحول بہتر بنانے میں مقابلہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تبدیلیوں کے باوجود ”اُنیس سو ستر‘‘کی دہائی کے اُواخر میں ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں چین نے جس طویل المدتی راستے کا انتخاب کیا تھا اسے اب بھی مناسب موافقت اور ترمیم کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔ دیگر مشرقی ایشیائی ممالک نے جاپان کی پیروی کی جس نے صنعتی حکمت عملی‘ ویژن تیار کرنے اور ان صنعتی حصول و برآمدی توسیع میں نجی شعبے کی مدد کرنے کے لئے ایک الگ وزارت بین الاقوامی تجارت اور صنعت کے نام سے قائم کی گئی۔ جاپان انکارپوریٹڈ ماڈل جہاں حکومت اور نجی شعبہ باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں اسے خطے کے بہت سے ممالک جیسے کوریا‘ ملائیشیا‘ چین وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ معیشت کی بہتری میں تیسرا کردار قیادت‘ حکمرانی اور ریاستی اِداروں کا ہوتا ہے۔ ترقی کی قریب سبھی مثالوں میں ایک مشترکہ خصوصیت سول سروس کے معیار اور سیاسی دباؤ سے قومی فیصلہ سازی کی آزادی‘ پالیسی کی تشکیل اور عمل درآمد کے معیار اور حکومت کے عزم کی ساکھ سے ظاہر ہونے والی مستحکم اقتصادی انتظام ہوتا ہے۔ ترقی کرنے والے اکثر ممالک میں مضبوط قیادت ہی مسائل کے حل میں کردار ادا کرتی ہے اور اِسی کے تسلسل سے ترقی و شرح نمو پیدا ہوتی ہے۔ کوریا میں جنرل پارک‘ سنگاپور میں لی کوان یو‘ انڈونیشیا میں جنرل سہارتو‘ ملائیشیا میں ڈاکٹر مہاتیر‘ فلپائن میں مارکوس کے بعد جنرل راموس‘ یہ سب اپنے اپنے ممالک میں چمکتے دمکتے چراغ تھے۔ ان کی جتنی بھی خامیاں تھیں انہوں نے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی ذمہ داری اُٹھائی اور اپنی قوموں کے لئے ٹھوس نتائج پر مبنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)