گردشی قرضہ جات

پہلا گردشی قرضہ بجلی کا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی استحکام کا تعلق قومی سلامتی سے ہے اور اگر پاکستان کی اقتصادیات کی بنیاد تلاش کی جائے تو وہ توانائی کا شعبہ ہے لیکن بدقسمتی توانائی کا یہ شعبہ مشکل میں دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ مالی و انتظامی شعبوں میں خاطرخواہ اصلاحات کا نہ ہونا ہے۔ توانائی کا شعبہ خاطرخواہ توجہ سے محروم ہے جبکہ اِس میں پاکستان کی اقتصادیات کو بنانے یا اِسے بگاڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔سال دوہزاراٹھارہ میں‘ جب تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وفاقی سطح پر حکومت بنائی تو اُس وقت تک واجب الادأ گردشی قرضوں کا حجم ایک اعشاریہ چودہ ٹریلین روپے یعنی ساڑھے نو ارب ڈالر تھا جبکہ گردشی قرضوں کا موجودہ حجم (بوجھ) ڈھائی کھرب روپے یا چودہ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ ترقی کی موجودہ شرح سے بڑھتے ہوئے‘ پاور سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ سال دوہزارپچیس تک چار کھرب روپے تک پہنچنے کا اندازہ (تخمینہ) لگایا گیا ہے۔
 حکومت صرف قیمتوں (ٹیرف) میں اضافہ کر رہی ہے (پچھلے چار سالوں میں بجلی کے بلوں میں سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے) لیکن یہ حربہ بھی کام نہیں آ رہا کیونکہ گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اِس موقع پر دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو بجلی کا ترسیلی اور دوسرا بجلی کی تقسیم کے نظام میں نقصانات ہو رہے ہیں جنہیں کم کرنے کی ضرورت ہے دوسرا گردشی قرض گیس کے شعبے کا ہے۔ سال دوہزاراٹھارہ میں جب ’پی ٹی آئی‘ نے وفاقی سطح پر حکومت بنائی تو گیس سیکٹر میں گردشی قرضوں کا ذخیرہ ساڑھے تین سو ارب روپے تھا۔ پچھلے تین سالوں میں گیس سیکٹر میں گردشی قرضوں کا ذخیرہ تقریباً دوگنا ہو کر ساڑھے چھ سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ گیس کا شعبہ بھی مشکلات میں پھنسا ہواہے۔ انجینئر ارشد عباسی کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک سو چھبیس ارب کیوبک فٹ گیس ضائع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سالانہ چار ارب ڈالر کے مساوی گیس ضائع ہو رہی ہے۔
 تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان ہر سال چار بلین ڈالر مالیت کی گیس کھو رہا ہے۔ انجینئر عباسی کا دعویٰ ہے کہ ”میتھین کے اخراج کو روکنے کے لئے بمشکل پچاس کروڑ ڈالر درکار ہوں گے۔“ تصور کریں: اگر ہم ضائع ہونے والی گیس ہی کو بچا لیں تو پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ گردشی قرض کا باعث بننے والا تیسرا شعبہ کموڈٹی آپریشنز (حکومتی اداروں کی خریداری) کا ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) صوبائی محکمہ خوراک کے ساتھ مل کر گندم‘ دالیں اور دھان سمیت غذائی اجناس خریدتی ہے۔ اس تمام خرید و فروخت میں پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کو ہر سال تقریباً دوسو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ جمع شدہ گردشی قرضہ اب نوسوتیرہ ارب روپے کا ہے۔ 
سال دوہزاراٹھارہ میں عالمی بینک نے پاکستان کی وزارت ِخزانہ کو اس کے سٹرینتھننگ مارکیٹس فار ایگریکلچر اینڈ رورل ٹرانسفارمیشن (سمارٹ نامی) پروگرام کے تحت تیس کروڑ ڈالر امداد کی پیشکش کی تھی۔ سمارٹ نامی پروگرام کے تحت پاسکو کے ادارے کو ختم کرنے کی سفارش بھی کی گئی جس کے بعد ’ڈائریکٹ فارمر ٹو ملر پروسیس‘ کے ساتھ ساتھ ’ٹارگٹڈ ان پٹ سبسڈیز‘ کا نظام متعارف ہونا تجویز کیا گیا۔ اِس حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے والا ادارہ زراعت کا محکمہ ہونا تھا لیکن کچھ بھی نافذ نہیں ہوا۔ گردشی قرضے پاکستان کا خون بہا رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں اجناس و اشیا کا خریدار اور اِسے فروخت کرنے والے فریق بننے پر اٹل ہیں جبکہ اِس شعبے میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ اِس ضرورت کا بیان ہے کہ حکومت کو اشیا کی خرید و فروخت روک دینی چاہئے اور اس کی بجائے ایک مؤثر ریگولیٹر بننا چاہئے۔  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)