اقتصادی زوال پذیری

پاکستان کی معیشت کس بحران سے گزر رہی ہے اور قومی اقتصادیات کو اِس سے کیا نقصان پہنچا ہے؟ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ ایسے بہت سے سوالات کے لئے گہرائی سے تحقیق بلکہ ڈاکٹریٹ کی سطح کا مقالہ درکار ہے۔ معاشی ماہرین کی اس بارے میں مختلف رائے ہیں اور وہ بہت سی دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ ملک کا معاشی بحران کثیر الجہتی ہے اور اگر ہم ایک مسئلہ حل کرتے ہیں تو دوسرا سامنے آ جاتا ہے اِس لئے بہتری کی ہر کوشش کہیں نہ کہیں جا کر دم توڑ دیتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے تسلسل بارے بحث‘ سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان تنازعات کی بحث‘ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی بحث‘ سیاسی عدم استحکام کی بحث‘ انفراسٹرکچر کی بحث‘ ریاست کی جانب سے اربوں کی فلاح و بہبود کے باوجود غربت بڑھنے سے متعلق بحث وغیرہ اپنی جگہ محرکات بھی ہیں جن کا قومی معیشت پر بُرا اثر پڑتا ہے لیکن اگر بہت سے معاشی سوال اور پہلوؤں کو محدود کرتے ہوئے چند اہم پہلوؤں ہی کو دیکھیں تو اِس بارے میں کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں‘ ایک ایسا نتیجہ جو دیگر کئی متعلقہ مسائل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان کی معاشی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور قیام پاکستان یعنی 1947ء سے لیکر 1977 تک کا درمیانی عرصہ ہے جبکہ دوسرا دور 1978ء سے آج تک کا ہے۔ پاکستان کی اِس تاریخ کے پہلے مرحلے میں‘ ہماری ریاست نے سماجی و اقتصادی ترقی کو ترجیح دی اور یہ انفراسٹرکچر‘ صنعتوں اور دیگر منصوبوں کی ترقی کی صورت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ 1970ء کے عشرے میں ملک میں غیرمعمولی شرح نمو رہی جو اکیس فیصد جیسی بلند سطح تک جا پہنچی تھی۔ اِس شرح کی بلندی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج شرح نمو بمشکل چار فیصد ہے۔ تب پاکستان نے دو بڑے (میگا) ڈیم بنائے اور مختلف ریاستی ادارے بشمول پاکستان سٹیل ملز اور تمام معاشی اشاریے مثبت تھے۔  معاشی نقطہ نظر اور مقصد ایک ہی تھا کہ پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا غلط ہوا کہ پاکستان کی معیشت ہر دن خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی؟ 1978ء کے بعد کے منظر نامے میں سماجی و اقتصادی ترقی پر خرچ کرنا  کمکر دیا اور اس طرح غیر ترقیاتی اخراجات کئی گنا بڑھ گئے۔ پاکستان کی اقتصادی پیداوار مسلسل پیچھے رہی اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پاکستان کو اپنی بنیادی ضروریات حتیٰ کہ ملک چلانے کے لئے بھی غیر ملکی قرضہ جات پر انحصار کرنا پڑا۔ مسلسل بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں اور غیر ترقیاتی اخراجات نے ہمارے معاشی اشاریوں  کو کمزور سے کمزور تر کردیا۔ ترقی پذیر معیشت کو سائنسی اور تکنیکی ترقی کی ضرورت ہے جو جدید اور ترقی پسند نظام تعلیم پر انحصار کرتی ہے۔ دیگر سماجی اور معاشی شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی ملکی سلامتی کی قربان گاہ اور تجربہ گاہ کی نذر ہوا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں مارکیٹ پر مبنی ہنر مند افراد پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی رہے۔ ہمیں ایسے تعلیم یافتہ اور ہنرمندوں کی ضرورت تھی اور ہے کہ جو بدلتے سماجی و اقتصادی رجحانات کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر پاکستان کا اپنا موازنہ کسی وجہ سے پڑوسی ممالک سے کیا جائے تو تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت میں فرق بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بھارت کو ہمارے مقابلے میں بہتر انفراسٹرکچر اور ادارے وراثت میں ملے لیکن پاکستان نے 1977ء میں بھارت کے مقابلے زیادہ تیزی سے اور زیادہ بہتر ترقی کی تھی۔ بھارت کے مقابلے پاکستان کے اب بھی بہتر قدرتی اور افرادی وسائل ہیں اور پاکستان کی آبادی بھی کم ہے جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایشیاء کی زیادہ تر ممالک نے انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کی اور اپنے تعلیمی نظام کو جدید سے جدید بنایا اور یہ عمل وہاں اب بھی جاری ہے ایسا کیوں ہے کہ جب بھی صنعتوں کے قیام (سرمایہ کاری) کی بات آتی ہے تو ہمارے سرمایہ دار اِسے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور یوں اندرون ملک سرمایہ کاری نہیں کی جاتی‘ جو بیرونی سرمایہ کاری کی طرح یکساں اہم و ضروری ہے کیونکہ جب تک اندرون ملک سرمایہ کاری نہیں ہوگی بیرون ملک سے بھی سرمایہ کار متوجہ نہیں ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالجلیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)