یوکرین کا حالیہ بحران دنیا کے تیزی کے ساتھ نئے عالمی نظام کی جانب بڑھنے کا ایک مظہر ہے۔ ابھی اس نظام کے خدوخال پوری طرح سامنے نہیں آئے لیکن اس حوالے سے تین اشارے بہت واضح ہیں۔ دنیا میں اب یک طرفہ اقدامات بڑھتے جارہے ہیں اور کثیر الجہتی نظام پسپائی اختیار کررہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور عالمی اقدار کو جان بوجھ کر پامال کیا جارہا ہے اور اُبھرتے ہوئے چین اور دوبارہ سر اٹھاتے ہوئے روس کے ساتھ امریکہ اپنے مقابلے میں تیزی لارہا ہے۔ اس مقابلے میں آنے والی تیزی بلاک میں تقسیم سیاست‘ نئی صف بندیوں اور اتحادوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے اپنی انڈو پیسیفک حکمت ِعملی اور خاص طور پر چین کے ساتھ مقابلے کیلئے بھارت پر نظرِ کرم کی ہے جس نے روایتی طور پر روس کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ دوسری جانب چین اپنے بڑے معاشی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ائٹو کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رسائی کو وسیع کررہا ہے اور اپنے سرمائے اور اشیا کیلئے نئی منڈیوں کو تلاش کررہا ہے۔ روس بھی اس ابھرتی ہوئی نئی دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کی کوششیں کررہا ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان کئی برسوں سے کشیدگی جاری تھی۔ امریکہ کی جانب سے روس پر عائد معاشی پابندیاں روسی معیشت پر شدید دباؤ کا باعث بنیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ اور روس ایک دوسرے کے مخالف ہی موجود ہیں۔
یوکرین بحران کے بعد سے تناؤ میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے یورپ کے سکیورٹی معاملات بھی بہت پیچیدہ ہیں اگرچہ روس کی جانب سے سکیورٹی کی یقین دہانی کا مطالبہ قابلِ فہم ہے اور مغرب کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش روس کو جنگ پر اُکسانے کا باعث بنی ہے لیکن پھر بھی ایک خودمختار ملک میں روس کی فوجی مداخلت نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے بلکہ روس اور دنیا بھر کو اس کی سخت قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس طرح موجودہ بحران سے بھی بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے جس سے دنیا کی معیشت پر دباؤ پڑے گا اور گزشتہ سرد جنگ جیسی بلاکس کی سیاست دوبارہ شروع ہوجائے گی۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے ایک طرح سے یورپ سے قطع تعلق ہی کرلیا تھا لیکن اب امریکہ نے یوکرین بحران کو استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف یورپ کو امریکی تحفظ کی چھتری فراہم کردی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اب امریکہ یورپی ممالک پر چین کے ساتھ شراکت محدود کرنے کا دباؤ ڈالے۔ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ یورپ میں چین کے خلاف امریکہ کے جارحانہ اقدامات روس اور چین کو مزید قریب لے آئیں گے اور یوں امریکہ کی زیرِ قیادت مغربی دنیا کے خلاف ایک بلاک بن جائے گا۔ اس وقت عالمی امن داؤ پر لگا ہوا ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں۔ دریں اثنا ایسا لگتا ہے کہ صدر پیوٹن روس کی عالمی سفارتی تنہائی کو روکنے اور یوریشئین خطے میں اہم کردار بننے کے لئے ایشیائی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ روس بھی اسی وسیع عالمی تناظر میں ہوا تھا۔ بنیادی طور پر یہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ایک دوطرفہ دورہ تھا۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس دورے کے وقت سے امریکہ اور یورپ ناراض ہوئے ہوں گے اور ان دونوں کے ساتھ ہی پاکستان کے خاطر خواہ معاشی تعلقات ہیں۔ اس خیال کو رد کرتا ہوا خیال یہ ہے کہ اگر دورے کو ملتوی یا مختصر کردیا جاتا تو گمان ہوتا کہ ایسا مغرب کے دباؤ میں کیا گیا ہے اور یوں روس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوجاتے لہٰذا اس دورے کو جاری رکھنا ہی بہتر تھا جس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور جس سے مستقبل میں ٹھوس تعاون کی راہ ہموار ہوئی۔ کئی سالوں سے روس اور پاکستان اپنے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے کوشاں تھے اس ضمن میں دوہزارچودہ میں کچھ پیشرفت ہوئی جب دفاعی شراکت کے ایک منصوبے پر دستخط کئے گئے تھے۔ اس کے بعد فوجی تبادلے اور مشترکہ مشقیں بھی ہوئیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی اگر معاشی میدان میں دیکھا جائے تو پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن میں روس کی سرمایہ کاری پر اب بھی بات نہیں بنی۔ دوطرفہ تعلقات میں پیشرفت کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ روس پاکستان میں کچھ معاشی منصوبوں پر کام کرے۔ یہاں احتیاط لازم ہے پاکستان کو اس حوالے سے محتاط اور ہوشیار رہنا ہوگا کہ روس پر عائد مغربی پابندیاں پاکستان میں روسی سرمایہ کاری کو متاثر نہیں کریں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ پاک روس تعلقات کا مستقبل کیسا ہوگا؟ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست میں روس زیادہ سے زیادہ ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہے گا۔ پاکستان کی بھی کچھ ایسی ہی خواہش ہوگی کیونکہ پاکستان امریکہ‘ یورپ‘ چین اور روس سمیت تمام طاقتوں کے ساتھ باہمی مفاد پر مشتمل تعلقات رکھنے کی آزادی چاہتا ہے۔ وزیرِاعظم کے دورہ روس نے پاک روس تعلقات کو تقویت تو بخشی ہے لیکن مستقبل میں روس کیساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں کچھ عوامل بہت اہم ہونگے پاکستان کیلئے اِس صورتحال میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہی میں بھلائی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اعزاز چوہدری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)