کیا یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی طرف سے روس پر لگائی گئی پابندیاں کچھ معنی رکھتی ہیں؟ اس سوال کا ایک وسیع تر تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کسی ملک کے خلاف ایسی پابندیاں کس مقصد کی تکمیل کرتی ہیں؟ نیو لبرل ازم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے جس کی مغربی سرمایہ دارانہ معیشتیں پابند ہیں تو ایسی اقتصادی پابندیاں زیادہ معنی نہیں رکھتیں بلکہ ایسے تعزیری اقدامات پیداوار اور کھپت کو کم کرتے ہیں جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور پیداواری شعبہ اور صارفین دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی اقتصادی نظام سکڑتا ہے اور اداروں بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی پوری صلاحیت یا حقیقی معاشی فوائد سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ اس طرح حاصل ہونے والا نتیجہ بہترین سے کم رہتا ہے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اقتصادی پابندیوں کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات‘ پاور پلے جیسا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ریاست یا اتحاد کی طرف سے اقتصادی پابندیاں دوسری ریاست پر طاقت کے استعمال کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ طاقت کے ایک آلے کے طور پر‘ یہ اقتصادی پابندیاں فوجی مداخلت اور سفارت کاری کے درمیان درمیانی راستے پر قابض ہوتی ہیں اور یہ فوجی مداخلت کے برعکس رہتی ہیں لیکن سفارت کاری کی طرح یہ بین الاقوامی تنازع کو حل کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کو مسترد کرنے پر زور دے رہی ہوتی ہیں۔
اقتصادی پابندیاں درحقیقت سزا کی ایک شکل ہوتی ہیں اور اس سے چار مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ تعمیل‘ روک تھام‘ اظہار خیال اور انتقام۔ عام خیال یہ ہے کہ کسی ریاست پر پابندی کے ذریعے اُس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جاتا ہے چونکہ کم از کم واضح طور پر‘ یہ پابندیاں اہداف کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی کی کوشش کرتی ہیں‘ اس لئے تعزیری اقدامات کا اصل نفاذ عام طور پر ایسا کرنے کے خطرے سے پہلے ہوتا ہے۔ پابندیوں کا اعلان اس بات کا اعتراف ہے کہ زبانی کلامی دھمکیاں عملی اقدامات کی صورت لاگو کر دی گئی ہیں۔ بعض اوقات‘ ایک ریاست پر پابندیاں کسی تیسرے ملک کو یہ پیغام بھیجنے کی صورت میں بھی کی جاتی ہیں کہ اگر وہ فرمانبرداری نہیں کرے گا تو پھر اُس کے خلاف بھی ایسی ہی پابندیاں عائد ہو جائیں گی جس کی قیمت اُسے چکانا پڑے گی۔ یہاں پابندیاں ”ڈیٹرنس“ کے طور پر سرانجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے بعض مواقع پر‘ پابندیوں کا بنیادی مقصد نہ تو ہدف کے طرز عمل میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی تیسرے ملک کے لئے اِس سے کوئی خطرہ ہوتا ہے بلکہ اِن کا مقصد ایک طاقتور حلقے کو خوش کرنا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر کسی ملک کو بیرون ملک منڈیوں تک رسائی سے انکار کرنے کے بعد یا ان کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو ضبط کرنے کے بعد‘ حکومت جوابی کاروائی کر سکتی ہے۔ یہ سزا کا انتقامی پہلو ہوتا ہے۔ دیگر مواقعوں پر‘ اقتصادی پابندیوں کی منظوری دینے والی ریاست صرف یہ ظاہر کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ وہ اقدار کو برقرار رکھے۔ کسی ریاست کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جرمانہ عائد کرنے کی صورت ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہاں پابندیاں بنیادی طور پر اظہار خیال ہوتی ہیں یعنی ان کا مطلب کسی ریاست کو مالی نقصان پہنچانا نہیں ہوتا۔روس کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں مذکورہ چاروں مقاصد کی تکمیل کے لئے وضع کی گئی ہیں۔ چوبیس فروری کو امریکی محکمہئ خزانہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق مذکورہ پابندیاں ”فوری طور پر عائد کرنے اور مستقبل کی اقتصادی سرگرمیوں میں خلل و تنزلی‘ روس کو بین الاقوامی مالیات اور تجارت سے الگ کرنے اور کریملن کی مستقبل میں صلاحیت کم کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور ”یورپ کے امن اور استحکام کو خطرہ“ کم کرنا بھی اِس کے اہداف ہیں۔“
روس کے خلاف عالمی پابندیاں درحقیقت چین کو مخاطب کرتے ہوئے عائد کی گئی ہیں جو ایک طرح سے ”محتاط پیغام“ ہے۔ اگر چین روس ہی کی طرح تائیوان پر قبضے کے لئے ایسی فوجی مہم جوئی کرتا ہے تو عالمی برادری نے پیغام دیدیا ہے کہ اُس کے خلاف بھی اِسی قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی اور چین کو بھی روس ہی کی طرح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذہن نشین رہے کہ روس کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس کے مرکزی بینک اور بڑے تجارتی بینکوں سمیت روسی مالیاتی شعبے کو نشانہ بنایا ہے اور روس کے بیرون ملک اثاثے ضبط کر لئے گئے ہیں۔ امریکی‘ یورپی اور برطانوی شہریوں کو روس کے مالیاتی اداروں کے ساتھ کاروبار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور مذکورہ ممالک میں روسی مرکزی بینک کے اثاثے بھی منجمد کئے گئے ہیں۔ کچھ روسی بینکوں کو برسلز میں قائم سوسائٹی آف ورلڈ وائیڈ انٹربینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن (سوئفٹ) سسٹم سے نکال دیا گیا ہے‘ جو بین الاقوامی لین دین کے لئے تجارتی بینکوں کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ (نظام یا چینل) ہے۔ مغربی طاقتوں نے بھی روسی طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر رکھا ہے۔ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا یہ پہلا (ابتدائی) دور انتہائی خطرناک ہے۔
سال دوہزارپندرہ کے جوہری معاہدے سے پہلے ایران پر اِسی قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جو آج بھی جاری ہیں لیکن وہ روس کے مقابلے میں کم سخت ہیں۔ مثال کے طور پر اب روسی مرکزی بینک اپنے غیر ملکی اثاثوں کو اپنی ملکی کرنسی روبل کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا جو پہلے ہی عالمی پابندیوں کا نقصان اٹھا رہا ہے۔ روسی بینکوں میں جن کی سوئفٹ سسٹم تک رسائی ختم کر دی گئی ہے‘ باقی دنیا کے ساتھ لین دین کرنے کے لئے ایک بہت ہی کم وسائل و سہولیات میسر ہیں۔ نتیجے کے طور پر روس کی غیر ملکی تجارت میں رکاوٹ آئے گی۔ پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا خوف و ہراس الگ ہے جبکہ روسی بینکیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کم از کم مختصر مدت میں‘ روسی معیشت کے پہنچنے والے نقصانات ظاہر ہو جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ روس کے بڑے تجارتی شراکت دار جن میں کچھ پابندیاں عائد کرنے والی ریاستیں بھی شامل ہیں جیسا کہ جرمنی بھی منہ موڑ لے گا چونکہ روس دنیا کا سب سے بڑا گیس اور دوسرا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ ہے‘ اِس لئے عالمی منڈی یعنی بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
ذہن نشین رہے کہ روس یوکرائن تنازعے کی وجہ سے پہلے ہی خام تیل کی قیمت 110ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی ہے لیکن کیا یہ پابندیاں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی مشرق کی طرف توسیع کے بارے میں روسی مؤقف میں تبدیلی لانے اور اسے یورپ میں امن و سلامتی کو ’خطرے میں ڈالنے‘ سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی؟ سرد جنگ کے دوران‘ نیٹو وہ اتحاد تھا جس کے ذریعے امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور جس کی نمائندگی سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریات جیسے خطرے کے خلاف تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نہ صرف نیٹو برقرار رہا بلکہ اس نے سابقہ سوویت یونین کے ممالک کو یورپی اتحادیوں میں شامل کیا اور یوں مشرق کی طرف وسعت اختیار کر لی جسے ماسکو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور یقینا اِس سے روس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ روس کو ”یو ایس ایس آر“ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی طاقت‘ جوہری ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے‘ قدرتی گیس و کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے جیسی حیثیت وراثت میں ملی ہے۔ ابتدائی سالوں میں ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنے کے بعد‘ روسی معیشت بحال ہوئی اور آگے بڑھی اور یہ اِس وقت دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت ہے۔ روس اپنے حجم‘ فوجی قوت اور بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کے مطابق بین الاقوامی سیاست میں کردار ادا کرنے کا خواہشمند رہا ہے۔
کئی بین الاقوامی مسائل بالخصوص شام پر ماسکو کا مؤقف واضح طور پر مغرب کے مخالف رہا ہے۔ ’یو ایس ایس آر‘ کا جانشین ہونے کے ناطے‘ روس نے یوکرین سمیت فوت شدہ سپر پاور کی دیگر وفاقی اکائیوں میں گہری دلچسپی کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا ہے۔ ماسکو کے زیرقیادت بلاک جیسا کہ کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ سٹیٹس اور یوریشین اکنامک یونین کو ترک کرتے ہوئے یوکرین نے مغرب کی طرف رجوع کیا۔ یوکرین‘ جو کہ مکمل طور پر یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے‘ یورپی یونین کیلئے بہت زیادہ تزویراتی و جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ روس سے مغربی یورپ کو گیس کی 80فیصد سے زیادہ کی سپلائی یوکرائن ہی کے ذریعے (راستے سے) ہوتی ہے۔ یوکرین یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کا رکن بھی ہے اور ماسکو کی سخت مخالفت کے باوجود نیٹو میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ سال دوہزارچودہ میں‘ یوکرین کے ساتھ کشیدگی نے روس کو یوکرین کے علاقے کریمیا کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا‘ جہاں کی آبادی کی اکثریت روسی زبان بولتی ہے۔ اگرچہ واشنگٹن اور یورپی یونین نے ماسکو کے کریمیا کے ساتھ الحاق کو تسلیم کیا لیکن وہ یوکرین کو ہدف بنانے پر شدید (مزید سخت) اِقتصادی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جیسا کہ ایران اور پاکستان کی مثال میں دیکھا گیا کہ عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہوئیں لیکن خاطرخواہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ روس پر موجودہ پابندیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ بہر حال زیر بحث پابندیاں نیٹو کے روس کے اطراف میں یعنی مشرق کی طرف پھیلنے سے متعلق ہیں جن پر ماسکو میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے اور موجودہ صورت میں روس یوکرائن یا روس بمقابلہ امریکہ و مغرب کے درمیان تنازعات کے حل میں صرف سفارت کاری ہی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)