چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں شمولیت کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی و تجارتی تعلقات معمول پر لانے کی سنجیدہ اور عملی کوشش سے یہ سوال زیربحث آیا ہے کہ ”کیا پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھ سکتا ہے؟“ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست اور خاص طور پر امریکہ و چین کی مسابقت اب ”نئی سرد جنگ“ کی طرح لگنے لگی ہے اور اگر اس مسابقت میں کسی وجہ سے مزید شدت آتی ہے تو اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ دنیا دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائے گی اور جلد یا بدیر ممالک کو دو میں سے کسی ایک کیمپ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان ان دو طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن نہیں رکھ سکتا اور اسے فوری طور پر چینی کیمپ کو اختیار کرلینا چاہئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ ناقابلِ بھروسہ ساتھی ہے جبکہ چین ایک آزمایا ہوا دوست ہے
۔ اس کے علاوہ امریکہ نے جنوبی ایشیا میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت کو اپنا سٹریٹجک اتحادی بنالیا ہے جبکہ پاکستان امریکہ کے سفارتی اور معاشی دباؤ کا سامنا کررہا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دنیا اب اس طرح کیمپوں میں تقسیم نہیں ہوگی جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکی اور سوویت کیمپوں میں ہوئی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کی نسبت امریکہ اور چین ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔ دوہزاراکیس میں امریکہ اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم ساڑھے چھ سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جبکہ چین کے پاس ایک کھرب ڈالر سے زائد کی امریکی سیکیورٹیز بھی موجود ہیں۔ یورپ‘ خلیج اور یہاں تک کہ مشرقی ایشیا میں بھی کئی امریکی اتحادی چین کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات رکھتے ہیں اور وہ دو سپر پاورز کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی ایک کے فائدے اور دوسرے کے نقصان کے طور پر دیکھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ کوئی بھی ملک کسی ایک طاقت سے تعلقات رکھنے کیلئے دوسری طاقت سے تعلقات منقطع کرنا نہیں چاہتا۔ موجودہ دور میں بین الریاستی تعلقات کی بنیاد باہمی مفاد اور مسائل کی بنیاد پر بننے والے اتحاد ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا ہونا بھی ممکن ہے کہ دو ممالک کسی ایک مسئلے پر اتحادی ہوں اور کسی دوسرے مسئلے پر ایک دوسرے کے مخالف۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ چین پاکستان کا قابلِ بھروسہ دوست ہے‘ اس نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا ہے اور بین الاقوامی فورمز پر ہماری حمایت کی ہے۔ چین نے اس وقت پاکستان کی معیشت میں اربوں کی سرمایہ کاری کی جب کوئی بھی یہ کام کرنے کیلئے راضی نہیں تھا۔تاہم ایک بلاک تک مخصوص ہونے کی بجائے چین چاہتا ہے کہ ہم امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھیں۔ یہاں توازن کا مطلب برابری یا برابر فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر تعلق کو اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ ہماری برآمدات کا سب سے بڑا حصہ امریکہ ہی جاتا ہ اور دہائیوں تک امریکہ کے ساتھ ہونے والی تجارت کا توازن ہمارے حق میں ہی رہا۔ اس کے علاوہ امریکی کمپنیاں بھی مستقل طور پر پاکستان میں موجود ہیں لہٰذا پاکستان کیلئے چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا معقول معلوم ہوتا ہے۔ اگر پاکستان ایک کے مقابلے میں دوسرے کا انتخاب کرے گا تو معاشی کمزوریوں اور اختلافات کی وجہ سے ایسا کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ توازن قائم کرنا مشکل ہوگا۔ چاہے وہ امریکہ کی زیرِ قیادت ڈیموکریسی سمٹ ہو یا چین کے زیرِ اہتمام سرمائی اولمپکس تاہم جب تک پاکستان اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے گا‘ چین اور امریکہ دونوں ہی ان فیصلوں کو سمجھ سکیں گے۔ پاکستان سمیت ہر ملک کو اپنے قومی مفادات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اعزاز چودہری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)