مشرقی دنیا چھائی ہوئی ہے جس سے مغربی ممالک تفکرات کا شکار ہیں۔ چین اور روس کے اتحاد اور بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے مغرب‘ بالخصوص امریکہ کیلئے تشویش پیدا کر رکھی ہے‘ روس کے یوکرین پر حملے کے ساتھ روسیوں نے امریکہ اور دیگر نیٹو اتحادی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جنہوں نے اب روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں‘ دریں اثنا امریکہ نے خطے میں جو خلا چھوڑا ہے اسے چین نے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرکے بڑی حد تک پُر کر دیا ہے۔ دوسری طرف طالبان کے چین کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کیلئے ’نام نہاد سپر پاور (امریکہ)‘ کی طرف سے چھوڑی گئی گندگی صاف کی جا رہی ہے‘ بدلتے عالمی نظام میں‘ پاکستان نے خود کو حکمت اور تدبیر کی بنیادوں پر کھڑا کر رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سفارتی تعلقات کی عالمی بحالی کے لئے روس اور چین کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی ہے
اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی مدد کی ہے بلکہ اپنی ہمت سے زیادہ مدد کی لیکن یہ دوستی اور تعلق یک طرفہ رہا جس کی پاکستان کو تن تنہا بھاری قیمت برداشت کرنا پڑی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں شہری اور فوجیوں کی قربانیوں سے پاکستان کی تاریخ کے کئی باب سرخ ہیں۔ پاکستان مہنگائی اور معاشی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے‘ نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایسے حالات میں‘ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے اور فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے سخت گیر معیارات پر پورا اُترنا کسی بھی حکومت کیلئے آسان نہیں ہے‘ اِس مشکل صورتحال میں پاکستان کی مدد کرنے کیلئے امریکہ نہیں آیا بلکہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین کی مدد سے زرمبادلہ کے ذخائر ایک خاص سطح پر رکھے جا سکے
اور جس کی وجہ سے پاکستان کا تجارت خسارے پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔روس ایک غیر فعال امریکہ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی بلاک یا کسی حد تک سوویت یونین کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔عالمی منظرنامے میں تبدیلی ناگزیر تھی لیکن یہ تبدیلی جنگ کے ذریعے ہو رہی ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کے سماجی و اقتصادی منصوبوں کے ذریعے خطے میں مسلسل بڑھتی ہوئی مداخلتوں سے امریکہ کی نیندیں حرام ہیں۔ یہ یوکرین میں روسی فوج کی کاروائیوں کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے‘یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ کیلئے یہ ایک ایسی کڑوی گولی ہے جسے نگلنا مشکل ہو گیا ہے لیکن امن سے محبت کرنے والوں کے طور پر‘ ہمیں اب طاقتور روس سے تحمل کے مظاہرے کی توقع رکھنی چاہئے۔ کسی دوسرے ملک پر حملہ دانشمندانہ اقدام نہیں ہوتا اور یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہئے کہ افغان سرزمین پر فوج کشی کی وجہ سے سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے تھے
کیونکہ دنیا نے روس کی مداخلت کو ختم کرنے کیلئے پس پردہ رہتے ہوئے جنگ لڑی تھی اور آج یوکرائن میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ جہاں امریکہ کی پسندیدہ جنگ کا ماحول بن رہا ہے جس میں روس کو جانی و مالی نقصانات کی پرانی منصوبہ بندی کو نیا جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم ممالک کی قیادت کیلئے یہ وقت بہت اہم ہے کہ وہ ہوشیار رہیں اور سمجھداری سے کام لیں کیونکہ انہیں کچھ مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالرحمن ملک۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)