مشرقی ایشیاء: جامع ترقیاتی نمونہ

مشرقی ایشیائی ممالک کی معیشتوں کا مطالعہ کر کے جو اِن کی معاشی ترقی سے متعلق ایک سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر اِن ممالک کو لازمی جزو کے طور پر زور دینا ہے اور قابل ذکر ہے کہ نجی اور سرکاری دونوں شعبوں کے ساتھ اکیڈمیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر کافی توجہ دی گئی ہے۔ کوریا اور تائیوان اِس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے امریکہ میں کام کرنیوالے اپنے شہریوں کو مراعات کی پیشکش کی اور وہ ترقی یافتہ ممالک چھوڑ کر اپنے ملک واپس آئے کیونکہ اُن کا احترام اور اُن کی عزت کی گئی۔ اِس طرح واپس آنیوالے سائنسدانوں اور انجینئروں نے مقامی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا۔ تحقیقی ادارے قائم کئے۔ لیبارٹریوں میں کام کیا اور صنعتی شعبے کی مصنوعات کی ترقی کے لئے کام کیا اور لاکھوں نوجوان مردوں اور عورتوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید آلات سے متعلق تربیت دی۔ یہ منظرنامہ بھی لائق ذکر و توجہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر‘ ٹیکنالوجی پارکس بنائے گئے۔ جامعات کے کیمپس قائم ہوئے اور اعلیٰ درجے کی تحقیق ہوئی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت دینے والے ممالک میں بچت کی اوسط شرح تیس اور چالیس فیصد کے درمیان ہے‘ جو براہ راست ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری سے حاصل ہوتی ہے۔
 سال 2020ء میں مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں مجموعی گھریلو بچت چھتیس فیصد تھی جبکہ سرمایہ کاری چونتیس فیصد تھی جس کیلئے صرف دو فیصد ایف ڈی آئیز کی طرف سے تعاون کیا گیا تھا۔ چین کی گھریلو بچت کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جو سرمایہ کاری کیلئے وسائل مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح ملائیشیا کی بچت کی شرح 43فیصد اور تھائی لینڈ کی 33فیصد ہے۔ مشرقی ایشیائی ممالک سن دوہزار کی دہائی کے اوائل کے دوران”خالص شرائط میں‘‘اٹھائیس ارب ڈالر کے قرض سے ریٹائر ہوئے۔ سال دوہزاربیس میں مشرقی ایشیائی ممالک کا بیرونی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب صرف اُنیس فیصد تھا جبکہ قرض کی خدمت سے برآمد کا تناسب دس اعشاریہ ایک فیصد رہا‘ جو ترقی پذیر ممالک میں سب سے کم ہے کیونکہ وہ سرمایہ کاری کے لئے بنیادی طور پر اپنی بچتوں پر انحصار کرتے تھے۔
 دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن ممالک نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی ہے اُن کی قدر مشترک یہ ہے کہ وہاں ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرنے والوں کا تناسب زیادہ ہے۔ مشرقی ایشیائی معاشرے کی غیر اقتصادی خصوصیات میں سے ایک مضبوط کام کی اخلاقیات‘ نظم و ضبط اور اعتماد ہے۔ ان میں سے ہر ایک ملک کی لیبر فورس انتہائی نظم و ضبط کی حامل ہے۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ قرضوں پر منحصر معیشت جس میں عالمی مالیاتی ادارے پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ بیرونی قرض دہندگان سے رجوع کرتے ہوئے قومی سطح پر سماجی ہم آہنگی اور معاشی خودمختاری کے اہداف کے حصول کی کوشش کرے۔ 
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)