غذائی عدم تحفظ: لاغر نسل

کسی انسان کی جسمانی ضروریات کے مطابق اگر اُسے ہر دن خوراک نہ ملے تو اِس سے پیدا ہونے والی کمزوری (لاغرپن) کو ”انیمیا“ کہا جاتا ہے‘ جو درحقیقت خون یا خون میں ضروری اجزأ کی کمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بچوں کی اکثریت غذائیت کی کمی سے پیدا ہونے والی سب سے عام بیماری یعنی ”انیما“ کا شکار ہیں اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو آج کل پیدا ہوا ہو لیکن یہ انتہائی گہرا مسئلہ ضرور ہے۔ درحقیقت شواہد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غذائیت کی کمی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں کئی دہائیوں کے دوران بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مختلف مطالعات اور سروے کافی عرصے سے ایک مایوس کن تصویر دکھا رہے ہیں جیسا کہ 1977ء میں مرتب کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 38فیصد آبادی خون کی کمی کا شکار تھی۔ 1988ء میں کئے گئے ”نیشنل نیوٹریشن سروے آف پاکستان“ میں زیادہ تفصیل سے صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور بتایا گیا کہ سات سے ساٹھ ماہ عمر کے پینسٹھ فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کے باعث بھی خون کی کمی ہوتی ہے جس کی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے۔ حالیہ سروے میں بھی کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ اعداد و شمار کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے اُنچاس فیصد بچوں میں فولاد (آئرن) کی کمی ہے۔ تمام موجودہ اعداد و شمار اور معلومات غذائیت کے اشارئیوں کی بہتری کو محدود کرنے والے مضبوط عوامل کی موجودگی کو نمایاں کرتے ہیں۔ بیماری کے پھیلاؤ‘ تقسیم اور اس کی وجوہات کے بارے میں گہرائی سے معلومات حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کی روک تھام اور کنٹرول کیلئے احتیاطی اور مناسب تدابیر اختیار کی جاسکیں۔ غذائی قلت کا مسئلہ بچوں کیلئے زیادہ سنگین خطرہ ہے کیونکہ اس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اُن کی جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے‘ جس کے نتیجے میں قومی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ سکول جانے والے بچوں کے درمیان تعلیمی اور جسمانی سرگرمیوں میں سست پیش رفت کو ہمیشہ لاپرواہی یا ان میں عدم دلچسپی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر کے اکثر بچے فولاد (آئرن) کی کمی کا شکار ہوتے ہیں جو درمیانی عدم توجہی‘ تھکاوٹ و تھکن وغیرہ کا سبب بنتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف سکول جانے والے بچوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ فولاد (آئرن) کی کمی اور خون کی کمی نوعمروں میں معذوری کا باعث بنتی ہے اور یہ دس سے چودہ سال کی عمر کے بچوں میں سانس کے انفیکشن اور اسہال کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ غذائیت کی کمی خاندانوں‘ آبادی اور آخر کار قومی سطح پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔ غذائیت کی کمی کا شکار لڑکیاں اور لڑکے کام کرنے اور اپنے فرائض انجام دینے یا معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے (شراکت داری) کی اپنی پوری صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ اس کا نتیجہ معاشی کمزور‘ کمزور قومی پیداوار‘ انسانی وسائل و سرمایہ سے ناکافی استفادہ اور کم پیداوار کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ غذائی کمی کی وجہ سے درپیش صورتحال ہنگامی بنیادوں پر توجہ کی متقاضی ہے اور ضروری ہے کہ حکومت اور عوام اِس سلسلے میں خاطرخواہ اقدامات کریں اور غذائی قلت سے پیدا ہونے والے مسائل اور اِن سے متعلق احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے۔ 1977ء سے 2018ء تک کے عرصے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عرصہ مسلسل غذائی کمی کا زمانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے غذائی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی بھی پالیسی یا پروگرام نہیں‘ جس کی وجہ سے آبادی کی اکثریت متاثر ہے۔ گزشتہ عام انتخابات (سال دوہزاراٹھارہ) کیلئے انتخابی مہمات کے دوران سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں غذائی قلت کو شامل کیا گیا اور بس اِس سے زیادہ سیاسی فیصلہ سازوں کی جانب سے تشویش دکھائی نہیں دیتی۔ غذائی قلت کے موجودہ مرحلے کے پیش نظر پاکستان کی آبادی جس دور سے گزر رہی ہے‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ غذائیت سے متعلق خدشات بالخصوص فولاد (آئرن) کی کمی سے پیدا ہونے والی خون کی کمی کو دور کیا جائے۔ آبادی اگر جسمانی طور پر صحت مند ہو گی تو وہ تبھی اِس قابل ہو گی کہ اپنی پوری صلاحیت کا مظاہرہ کر سکے۔ بڑھنے کی عمر میں بچوں کو بہت زیادہ غذائی اجزأ کی ضرورت ہوتی ہے اور غذا کی کمی ان کی زندگی کیلئے خطرہ بھی ہوتی ہے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب توجہ کرنی چاہئے اور مختلف غذائیت سے متعلق حساس اور مخصوص پروگرام شروع کرنے چاہیئں جیسا کہ فوڈ فورٹیفیکیشن پروگرام‘ جس کے ذریعے خاص طور پر شیرخوار اور بچوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے طبقات کیلئے بھی خصوصی پروگرام اور پالیسیاں مرتب کی جانی چاہئیں اور آبادی کی اکثریت میں فولاد (آئرن) کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے چاہیئں۔ (مضمون نگار صحت عامہ سے متعلق امور کی مشیر ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فوزیہ وقار۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)