لبنان: دیوالیہ پن

لبنان مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں سنگین معاشی بحران کے درمیان سیاست دان اپنا اپنا کھیل‘ کھیل رہے ہیں جس کے تباہ کن نتائج ہیں۔ نو مارچ دوہزار بیس کو لبنان ایک اعشاریہ دو ارب یورو بانڈ کی ادائیگی نہیں کر سکا۔ اس دن لبنان دیوالیہ ہوا۔ لبنان کی 77سالہ تاریخ میں یہ ایسا پہلا دیوالیہ ہونا ہے جو ایک خودمختار حکومت کے دور میں ہوا ہے اور یہی وہ دور ہے جب (لبنان کا قومی قرض 90 ارب ڈالر تک پہنچا)۔ اس دن‘ لبنانی پاؤنڈ باضابطہ طور پر ڈالر کے مقابلے میں‘ بلیک مارکیٹ میں اپنی قیمت کی چالیس فیصد قدر کھو بیٹھا۔ بینکوں کے پاس جمع کنندگان کو واپس کرنے کیلئے کرنسی نہیں تھی۔ ”ہم قرض دہندگان کو کیسے ادائیگی کر سکتے ہیں جب لوگوں کے پاس روٹی خریدنے کے بھی پیسے نہیں رہے؟“ یہ بات وزیراعظم حسن دیاب نے کہی جو بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم ہیں اور انہوں نے لبنان کے 137ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ دیوالیہ ہونے کے بعد‘ لبنان کی تین چوتھائی آبادی غربت کے انتہائی مشکل دور سے گزار رہی ہے۔ اِس دیوالیہ (ڈیفالٹ) کے بعد‘ وہاں بے روزگاری کی شرح پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
 لبنان کی ”معاشی تباہی حالیہ دنوں میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران ہے۔“ لبنان کے پاس اب اتنے پیسے نہیں کہ یہ ملک کو بجلی فراہم کرنے والی صنعتیں (پاور پلانٹس) چلانے کیلئے درکار تیل خرید سکے کیونکہ اِس کے پاس ڈالر نہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ بیروت کے ’رفیق الحریری ہوائی اڈے‘ سمیت ملک میں برقی رو طویل دورانئے تک بند رہتی ہے۔ 1945ء میں قائم ہونے والی لبنانی مسلح افواج کے پاس 80 ہزار زمینی دستے‘ ڈھائی ہزار فضائیہ کے اہلکار‘ سترہ سو بحری افواج اور ڈھائی ارب بلین ڈالر کا سالانہ بجٹ ہے۔ اوسطاً لبنان کے ایک فوجی کو ماہانہ بارہ لاکھ لبنانی پاؤنڈ ادا کئے جاتے ہیں جو کہ سرکاری شرح مبادلہ کے حساب سے آٹھ سو ڈالر کے مساوی رقم ہے لیکن بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ لبنان فوج کے اہلکار بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بریگیڈئر جنرل یوسف حداد کے مطابق ”ہر لبنانی فوجی کو ماہانہ بنیادوں پر اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں مدد کیلئے ایک اضافی بونس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ لبنان کی مقامی کرنسی ”بلیک مارکیٹ میں ا کا نوے فیصد سے زیادہ قدر“ کھو چکی ہے۔ ایل اے ایف کے کمانڈر اِن چیف جنرل جوزف عون کا کہنا ہے کہ ”ہم اپنے فوجیوں کے مصائب اور معاشی پریشانیاں کم کرنے کے لئے ناممکن کام کر رہے ہیں۔“
 پچھلے سال فوج نے ”کھانے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے‘ ڈیوٹی پر مامور فوجیوں کو دیئے جانے والے کھانے سے گوشت ختم کر دیا تھا۔“ جون دوہزاراکیس میں فرانس نے لبنان فوج کیلئے عطیات جمع کئے اور اِس سلسلے میں ایک ورچوئل کانفرنس کی میزبانی بھی کی۔ فرانسیسی وزارت دفاع کے مطابق ”لبنان کا بحران تشویشناک ہے کیونکہ لبنانی فوج سیکورٹی کو برقرار رکھنے والا کلیدی ادارہ ہے۔ لبنان میں ”دودھ‘ آٹا‘ دوائی‘ ایندھن وغیرہ کی قلت ہے جبکہ مشینری کے فاضل پرزہ جات جیسی ضرورت بھی درپیش ہے۔ لبنان فوج کی مالی مدد کرنے والوں میں فرانس‘ مصر‘متحدہ عرب امارات‘ ترکی اور سپین شامل ہیں۔ گزشتہ برس قطر نے اعلان کیا تھا کہ وہ ”لبنانی مسلح افواج کو ایک سال تک ماہانہ ستر ٹن خوراک فراہم کرے گا۔“ فروری دوہزاربیس میں‘ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے لبنان فوج کے سپاہیوں کو تنخواہیں دیں۔ سینیٹر کرس مرفی کے مطابق ”یہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ وہ اس موقع پر لبنانی فوجیوں کی مدد کی جائے۔“ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ خوراک مہنگی ہو جاتی ہے۔ بے روزگاری کی بلند شرح‘ بے تحاشہ غربت‘ خوراک کی کمی، وسیع پیمانے پر جرائم اور ملک کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کا مکمل طور پر تباہ ہوتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)