پاکستان آج 48ویں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی کرنے جارہا ہے اور اس اجلاس کے دوران ہی یومِ پاکستان بھی منایا جائے گا۔یہ اجلاس او آئی سی کے اصول و مقاصد خاص طور پر مسلم دنیا میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے کر امت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے عزم کو نمایاں کرے گا۔او آئی سی کا قیام اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی پر حملے کے ردِعمل میں ستمبر 1969 میں عمل میں آیا۔چاہے وہ بیرونی قبضے میں دبے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا بوسنیا اور میانمار میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا معاملہ یا پھر افغانستان، یمن، شام اور لیبیا میں جنگوں کی روک تھام، پاکستان او آئی سی کے تاسیسی رکن کے طور پر اس کی جانب سے کی گئی کاوشوں میں سب سے آگے رہا ہے۔57 رکن ممالک پر مشتمل یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ پاکستان نے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلاموفوبیا، کورونا وبا اور غربت جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان او آئی سی کو کتنی اہمیت دیتا ہے، اس کا اندازہ پاکستان کی جانب سے او آئی سی کے کئی اجلاسوں کی میزبانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں 1974 دوسرا او آئی سی سمٹ، 1997 میں او آئی سی کا دوسرا غیر معمولی اجلاس اور 1970، 1980، 1993 اور 2007 میں ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس شامل ہیں۔پاکستان او آئی سی کمیشن فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کامسٹیک) اور اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، انڈیپینڈنٹ پرمننٹ ہیومن رائٹس کمیشن اور آبزرویٹری آن اسلاموفوبیا کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اسلام آباد میں ہونے والا 48واں وزرائے خارجہ اجلاس پارٹنرنگ فار یونیٹی، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (شراکت برائے اتحاد، انصاف و ترقی) کے عنوان سے ہورہا ہے۔ اس اجلاس میں او آئی سی کو درپیش اہم معاملات پر 100 سے زائد قراردادوں پر غور کیا جائے گا۔اس اجلاس میں پاکستان کا مقصد اتحاد کو فروغ دینا اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل پر یکسوئی پیدا کرنا ہوگا۔ ان مسائل میں تمام مسلمانوں بشمول کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کیلئے انصاف کی فراہمی، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سے متعلق اہداف پر عمل کرتے ہوئے مسلم دنیا میں ترقی اور خوشحالی کیلئے شراکت کو فروغ دینا اور کورونا وبا کے اثرات سے باہر آنے کو یقینی بنانا شامل ہے۔پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اجلاس 2 وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے، ان میں پہلی وجہ تو کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ادراک اور دوسری اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرات کو موثر طریقے سے روکنے کی ضرورت ہے۔کئی مبصرین کے مطابق او آئی سی خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے توقعات پر پوری نہیں اتر سکی ہے۔ تاہم او آئی سی کے کردار کی حقیقت پسندانہ تشخیص ضروری ہے۔دیگر کثیر الاقوامی تنظیموں کی طرح او آئی سی کے پاس کسی قسم کی قوت نافذہ نہیں ہے۔ یہ ممالک سے اپنے فیصلوں پر عمل کروانے کیلئے صرف اخلاقی دباؤ اور ترغیب کا ہی سہارا لے سکتی ہے۔ پھر مسلمان ممالک کے پاس اس قسم کی عسکری، سیاسی یا معاشی قوت بھی نہیں ہے کہ وہ دیگر ممالک کو او آئی سی کے تابع کرسکیں۔ اس کے باوجود او آئی سی کو چاہئے کہ باہمی اتحاد کو مضبوط کیا جائے تاکہ یہ عالمی برادری میں ایک خاطر خواہ قوت کے ساتھ کھڑی رہ سکے۔اسی وجہ سے پاکستان بھی او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین یکجہتی پر مسلسل زور دیتا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی مواقعوں پر او آئی سی کے معاملات کو ہر قیمت پر ترجیح دی ہے۔ اس میں فلسطینیوں کی جدوجہد کی مستقل حمایت اور اس وقت تک اسرائیل کو قبول نہ کرنا شامل ہے جب کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل نہیں نکل جاتا۔دوسری طرف کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کو قوت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر بتائی گئی وجوہات کے باعث او آئی سی اپنے فیصلے بھارت میں نافذ نہیں کروا سکتی لیکن یہ فیصلے ایک طرح کا اخلاقی دباؤ ضرور ہوتے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے متعدد قراردادوں کے علاوہ او آئی سی نے ایک کشمیر رابطہ گروپ بھی تشکیل دیا ہے اور بھارت کے ساتھ براہِ راست رابطے استوار کرنے کے ساتھ کئی انکوائری کمیشن بھی تشکیل دئیے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف کشمیر میں رائے شماری کیلئے اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد بلکہ کشمیریوں پر ظلم و جبر کے فوری خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔آپ اس اخلاقی دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بھارت نے 2019 کے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں خطاب کرنا چاہا، وہ او آئی سی کے ساتھ مستقل رابطے میں بھی رہتا ہے اور او آئی سی کا حصہ بننے کیلئے بے چین بھی ہے۔پاکستان نے انسدادِ اسلاموفوبیا کے حوالے سے بھی او آئی سی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں او آئی سی گروپ کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے پاکستان نے پیغمبر اسلام ؐکے خلاف توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد سے ہر سال توہین مذاہب کے خلاف قرارداد منظور کروانے کو یقینی بنایا۔2011 میں پاکستان نے اس مسئلہ پر عالمی قبولیت کے حصول اور اس کے مخالف مغربی ممالک کو قائل کرنے کیلئے ایک اہم کام کیا۔ پاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلاموفوبیا کا مقابلے کرنے اور اس حوالے سے ایکشن پلان کیلئے جو قرارداد منظور ہو اس پر سب کا اتفاق ہو، اس ایکشن پلان کو استنبول پراسس کا نام دیا گیا۔10 برس بعد یہ اتفاق رائے آج بھی قائم ہے اور اتفاق رائے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے کو جرم قرار دینے پر بھی موجود ہے۔ 2018 میں اقوامِ متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اسے مزید آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کو مذہبی اور نسلی تعصب کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں روس، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔مستقبل میں پاکستان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان پہلے ہی کامسٹیک کی میزبانی کرچکا ہے جسے اس شعبے میں اسلام کی ماضی کی شان و شوکت بحالی کا سبب بننا چاہئے۔اس کے علاوہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سول ایٹمی تنصیبات چلانے سے متعلق بہترین ریکارڈ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان دیگر او آئی سی ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے سول استعمال کی تربیت فراہم کرسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سول استعمال توانائی، ادویات اور زراعت کے شعبے میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان 48ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں اس نکتے پر بھی بات کرسکتا ہے۔(بشکریہ ڈان،تحریر:ضمیر اکرم،ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سائبرسکیورٹی: نئے محاذ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام