بھارت کے میزائل حادثاتی طور پر پاکستان کی حدود میں گرنے کے معاملے کو صرف خطے ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت کے چارج ڈی افیئرز سے ”بھارتی سپر سونک فلائنگ آبجیکٹ“ کی طرف سے اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا۔حادثاتی میزائل واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات“ کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت سے انکوائری کے نتائج بھی طلب کئے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے سیاسی سطح پر سب سے پہلے اور فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ”انڈیا کی ایسی حساس ٹیکنالوجی کو سنبھالنے کی صلاحیت“ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ”میزائل نے بین الاقوامی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے علاؤہ اُس راہداری پر بھی سفر کیا جو مقامی کمرشل ائر لائنز کیلئے مخصوص ہے اور اِس طرح یہ میزائل عام شہریوں کی سلامتی کیلئے خطرے کے طور پر سامنے آیا۔“ بھارت میزائل واقعے سے کافی حد تک شرمندہ تھے یہی وجہ تھی کہ بھارتی حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کی تاہم واضح نہیں کہ بھارت کے پاکستان کی سرحد سے قریب نصب میزائل ہٹائے ہیں یا نہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا میزائل پروگرام انتہائی متنازعہ و غیرمحفوظ ثابت ہوا ہے بالخصوص برہموس سیریز کے میزائیلوں کی صلاحیت پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ برہموس میزائل بھارت اور روس کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اِبتدائی طور پر‘ جب روس اس پروگرام کا حصہ نہیں تھا اور بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی ’تین سو کلومیٹر‘ سے کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بناتی تھی لیکن روس کی شراکت سے اِس پروگرام کو وسعت ملی۔بھارتی میزائل کے حادثے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بھارت نے میزائل کی تنصیب اور تجربے سے اسلام آباد کو آگاہ نہیں جو دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقوں کے حوالے سے ایک طے شدہ حکمت عملی ہے کہ یہ جب کوئی ایسا تجربہ یا مشق کریں گے تو اِس سے دوسرے ملک کو آگاہ کیا جائے گا۔ اِس صورتحال کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ برہموس کروز میزائل تھا جس کے بارے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک نے دوہزارپانچ میں بیلسٹک میزائل ٹیسٹنگ کی پیشگی اطلاع پر ایک مفاہمت نامے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن پاکستان کے اصرار کے باوجود‘ بھارت نے کروز میزائلوں کو پیشگی اطلاع کے نظام میں شامل نہیں کیا۔ بھارت کی ہچکچاہٹ کے پیچھے بدنیتی پوشیدہ ہے۔
بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی روس کی مدد سے ہے تاہم بھارت اس وقت حیران رہ گیا جب پاکستان نے اپنا پہلا کروز میزائل ”بابر“ لانچ کیا۔ بیلسٹک میزائل ٹیسٹنگ کی پیشگی اطلاع پر ایم او یو پر دستخط کرنے کے صرف دو ہفتے بعد پاکستان نے یہ تجربہ کیا تھا اور اِس پر بھارت کے ذرائع ابلاغ نے بہت ہنگامہ کیا۔ میاں چنوں میں بھارتی میزائل حادثے سے یہ سبق سیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک کروز میزائل سمیت تمام کیٹیگریز کے میزائلوں کے بارے میں پیشگی و فوری اطلاع دینے پر رضامند ہونے کے قریب ہیں۔ بھارتی مبصرین نے بھی سرکاری ذرائع کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں جو یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان کو میزائل کے غلطی سے چل جانے کے بارے میں آگاہ کرنے میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت کیوں لگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ بھارت نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں خامیوں بالخصوص تکنیکی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی اور جب وہ اِس میں ناکام ہوا تو اُس نے اپنی غلطی تسلیم کر لی حالانکہ یہ معاملہ غلطی تسلیم کرنے سے کئی گنا زیادہ سنگین و افسوسناک اور تشویشناک ہے اور پاکستان و بھارت کے درمیان اعتماد سازی کیلئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: آصف درانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)