مارچ 1940ء میں پیش کی گئی قرارداد جو پاکستان کی بنیاد بنی وہ بہت ہی پُربصیرت اور اُمید افزا تھی جو آزاد پاکستانی ریاست کے قیام پر منتج ہوئی۔ حکومت کے اندر اور باہر موجود سیاسی رہنماؤں کو موجودہ صورتحال سے آگے بڑھ کر ایسا لائحہ عمل (روڈ میپ) پیش کرنا ہوگا کہ جو ملک کو آگے لے جا سکے درحقیقت ماضی میں ہماری حکومتوں نے اپنے اقتدار کا بڑا حصہ صرف فوری نوعیت کے مسائل کو سنبھالنے میں صرف کیا ہے۔ وہ فوری اور اہم مسائل دونوں کو حل کرنے کیلئے طویل مدتی پالیسی تیار کرنے کے بجائے آسان اور قلیل مدتی حل تلاش کرتے رہے اور بامعنی اصلاحات کو ٹالتے رہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اہم معاشی‘ ادارتی اور سماجی مسائل حل طلب ہی رہے۔ ملک کو درپیش چیلنجز بہت گھمبیر ہیں۔ ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ایک دوسرے کو مزید سنگین بنارہے ہیں۔ ان میں معاشی ڈھانچے کی ابتری‘ تعلیمی خسارہ‘ آبادی میں ہونے والا بے قابو اضافہ‘ ماحولیاتی تباہی اور ظاہر ہے کہ معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت بھی شامل ہے۔ ہمارے مغرب میں ایک غیر مستحکم افغانستان اور مشرق میں دشمن ملک بھارت کے ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی جنگ کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان اہم ملکی مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جاتا ہے جو ملک کے مستقبل کو تشکیل دیں گے۔ ان میں سب سے اہم چیلنج معاشی مسائل ہیں۔
حکومت کے بجٹ اور ملک کے تجارتی اکاؤنٹ میں خسارہ بڑھتا جارہا ہے ساتھ ہی قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے پاکستان کو معاشی بحران سے بچانے کے لئے فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے لیکن یہ صرف ایک قلیل مدتی حل ہے۔ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لئے بجٹ کے ساختی ذرائع اور ادائیگیوں کے توازن کے خسارے سے نمٹنا ہوگا۔ اس کام کے لئے اہم اقدامات پر سیاسی اتفاق رائے یعنی ایک معاشی معاہدے یا میثاقِ معیشت کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے درمیان معاہدہ ضروری ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشی معاہدے کے نکات کیا ہوں گے؟ سب سے پہلے تو ٹیکس نظام کو آسان اور مساوی بنانے کو ترجیح دینی چاہئے۔ اسے ملک بھر میں نافذ کرنا چاہئے تاکہ پورے یکساں ٹیکس نظام عملاً نافذ ہو۔ مقامی وسائل کو سنجیدگی سے متحرک کرنے میں ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنا‘ ٹیکس ادائیگی یقینی بنانا‘ جی ایس ٹی کے حوالے سے اصلاحات اور چھوٹ ختم کرنا ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ بجٹ کی ترجیحات کی تشکیلِ نو‘ اخراجات کو محدود کرنے اور سبسڈی میں کمی کرنے کے ساتھ یہ معیشت کو پائیداری کی راہ پر گامزن کرنے کی اہم ترین کوشش ہوگی۔
اس معاہدے میں ایک اور عنصر ملک کیلئے اہم ہے اور وہ ہے آزاد کاروباری ریگولیٹری فریم ورک پر اتفاق۔ جب حکومتیں تبدیل ہوں تو اس فریم ورک کے ساتھ زیرِ عمل منصوبوں کو برقرار رکھنے کیلئے مستقل مزاجی ضروری ہوتی ہے۔ پالیسی کا تسلسل اور غیر یقینی ختم کرنا سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے کے لئے بہت اہم ہے۔ جس تیسری چیز پر اتفاق ضروری ہے وہ ہے ریاستی ملکیت میں موجود ایسے اداروں کی نشاندہی‘ جو خسارے میں چل رہے ہیں اور دیوالیہ ہیں اور پھر ان کی نجکاری کردی جائے۔ یہ ادارے صرف پیسے کے ضیاع کا ذریعہ ہیں اور بجٹ خسارے کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ایسا بوجھ ہے جسے ہمیشہ کیلئے اتار دینا چاہئے کیونکہ یہ قومی ترقی کو مجروح کر رہے ہیں۔ اس معاہدے میں دیگر اہم معاملات کو بھی جماعتی سیاست سے بالاتر ہوکر سوچنا اور دیکھنا چاہئے۔ ان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات‘ سٹیٹ بینک کی عملی خودمختاری‘ مارکیٹ کے مطابق شرح مبادلہ کا تعین اور برآمدات میں اضافہ شامل ہے لیکن اس معاہدے کو بنانے کے لئے طویل مدتی سوچ رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہوگی اور اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ کون سی اصلاحات پر اتفاق رائے کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوششوں کو اس اعتراف پر منحصر ہونا چاہئے کہ جب تک معیشت کو ٹھیک نہیں کیا جاتا، باقی سب کچھ بیکار ہے۔ یہی دلیل تعلیمی چیلنج اور اس کے طویل مدتی حل کی ضرورت کے لئے بھی ہے۔
بانیئ پاکستان قائدِاعظم نے ایک بار کہا تھا کہ ”تعلیم ہمارے ملک کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔“ پھر بھی ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے رجوع نہیں کر رہے اور سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم نے ہمیشہ تعلیم پر بہت کم خرچ کیا ہے۔ تعلیم میں سرمایہ کاری کے علاؤہ کوئی چیز ملک کی تقدیر بدلنے کو یقینی نہیں بناسکتی۔ یہ اقتصادی ترقی‘ عالمی مسابقت‘ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور زیادہ روادار معاشرے کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے اگرچہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاقی حکومت کو تعلیمی اصلاحات کو ترجیح دینے اور صوبوں کو مزید فنڈز مختص کرنے کی ترغیب دینے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے جس کا مقصد تعلیم کی رسائی اور معیار دونوں کو بہتر کرنا ہو۔ سب کیلئے تعلیم کی فراہمی کو صرف ایک مطلوبہ سماجی مقصد کے طور پر نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک ضرورت کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔پالیسی اقدامات کے لئے ایک اور معاملہ جو سرکاری ترجیحات یا سیاسی بحث میں شاذ و نادر ہی آتا ہے وہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ہے۔ ہماری آبادی اب بھی جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس کے دور رس معاشی اور سماجی نتائج اور سلامتی کے مضمرات ہوسکتے ہیں‘ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب ہمارے یہاں بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
جب تک کہ انتظامِ آبادی کے اقدامات کو قومی سطح پر نافذ نہیں کیا جاتا اور بے لگام ترقی کے ساتھ تعلیمی مواقع اور ملازمتوں میں اضافے کی رفتار کو برقرار نہیں رکھا جاتا تو اس سے ایک بحرانی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات بھی ایسی ناگزیر چیز ہے جس پر ملک کی سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اس بات پر بڑے پیمانے پر اتفاق ہے کہ وقت کے ساتھ ریاست کی ادارہ جاتی صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جب تک جدید طرزِ حکمرانی کے تقاضوں کے مطابق حکومت کو نہیں ڈھالا جاتا اور خدمات کی فراہمی کو بہتر نہیں بنایا جاتا تب تک اچھی سے اچھی حکومتی پالیسی کو بھی مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے سہل پسندی نہیں بلکہ جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے متعدد سرکاری کمیشن کی رپورٹوں میں کئی اچھی سفارشات موجود ہیں جن پر توجہ دی جاسکتی ہے۔
(بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)