کشمیر: بنیادی مسئلہ

پاکستان کے نکتہئ نظر سے عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کا متوقع دورہ بھارت خاص اہمیت کا حامل ہے اور اِس دورے پر عالمی ذرائع ابلاغ کی بھی نظریں ہیں جو کشمیر پر چین و بھارت کی قیادت کے بیانات اور اِن بیانات کی روشنی میں مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وانگ یی نے اسلام آباد میں ”او آئی سی‘‘کے حالیہ وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کشمیر پر ہم نے آج ایک بار پھر اپنے بہت سے اسلامی دوستوں کے مطالبات سنے ہیں اور چین بھی یہی امید رکھتا ہے۔“ بھارت نے اس بیان پر چین کے وزیر خارجہ کا نام لے کر ردعمل دیا۔ وزارت خارجہ نے تیئس مارچ کو اپنے بیان میں کہا کہ ”بھارت او آئی سی کے افتتاحی تقریب میں تقریر کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی طرف سے دیئے گئے حوالے کو مسترد کرتا ہے۔

“ بھارتی وزارت امور خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی کے ذریعے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ”جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے سے متعلق معاملات مکمل طور پر بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔ چین سمیت دیگر ممالک کے پاس تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔“ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ”چین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کا آغاز دونوں اطراف کے ممکنہ اعلیٰ سطحی دوروں سے ہونا تھا۔“

ماضی میں بھارت میں ماہرین اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے لداخ کی سرحد کے ساتھ مبینہ چینی دراندازی کے بارے میں انڈین حکومت کے ردعمل پر تنقید کی ہے اور اسے کمزور کہا ہے۔سال دوہزاراُنیس میں جب چین نے اِس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا‘ بھارت چین کے مؤقف کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ چین نے اب تک کشمیر کے مسئلے کو تین بار اٹھایا۔ بھارت عام طور پر چین پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے۔ خاص طور پر ایسے مسائل پر جنہیں چین اپنے اندرونی مسائل قرار دیتا ہے مثلاً ہانگ کانگ‘ تائیوان‘ تبت اور اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں۔ چین سے منسلک مسائل پر بھارت کے ہوشیار ردعمل کا لداخ کے ساتھ بھی تعلق ہے جبکہ پارلیمنٹ کی دوہزاراُنیس کی متنازعہ قرارداد نے لداخ میں زمینی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ کشمیر ہو یا کوئی بھی دوسرا عالمی معاملہ چین کا اِس بارے میں نکتہئ نظر اور کسی کشیدہ صورتحال پر ردعمل دونوں ہی ہمیشہ محتاط ہوتے ہیں اِس لئے کشمیر کا مسئلہ چین یا کسی دوسرے ملک یا اقوام متحدہ کی مداخلت سے حل نہیں ہوگا۔ جہاں تک مسلمان ممالک کے درمیان تعاون و ترقی کے لئے اِشتراک ِعمل کی تنظیم ”اُو آئی سی‘‘کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی کشمیر کا نام لیکر ایسی قراردادیں آتی رہی ہیں ہر مرتبہ پاکستان کے دباؤ ڈالنے سے ’اُو آئی سی‘ کے کسی بھی سطح پر اجلاس میں کشمیر یا فلسطین جیسے موضوعات کا ذکر کر دیا جاتا ہے لیکن اِس سے قطعی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اگر مغربی دنیا اور امریکہ کشمیر و فلسطین کے بارے میں اپنی ترجیحات (مؤقف) تبدیل نہیں کریں گے تو اِسے مسلم دنیا اپنے خلاف جنگ سمجھے گی۔

جہاں تک چین کی جانب سے کشمیر کا معاملہ ”او آئی سی‘‘میں اٹھانے کی بات ہے تو یہ چین کا سفارتی انداز ہے جو خاصا کامیاب و مقبول رہا ہے۔ جب چین کے صدر شی جن پنگ بھارت گئے تھے تب بھی اِسی قسم کے بیانات دیئے گئے تھے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چین کسی بھی فورم سے کچھ بھی کہے تو اِس کے بیانات کا مطلب عملاً کچھ نہیں ہوتا چونکہ چین پاکستان کا ایک غیرمشروط دوست ہے اِس لئے کشمیر کے حوالے سے اُس کے بیانات کو عالمی سفارتکاری اور عمومی سفارتی طرزعمل سے مختلف پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔ چین کے وزیرخارجہ کا دورہئ بھارت جزوی طور پر کمانڈروں کی سطح کی ہوئے اجلاسوں کے بعد ہو رہا ہے جس میں معاملات آگے نہیں بڑھ رہے اور دونوں ممالک شاید یہی چاہتے ہیں کہ سرحدی جھڑپیں بند اور تناؤ ختم ہو۔ یہ امر اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ بھارت و چین تنازع کے باوجود چین کے وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ اِس کے دورے کی ’سرکاری طور پر وجہ برکس (برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل اتحادی گروپ) کی تشکیل ہے لیکن کسی ملک کے وزیر خارجہ کے دورے میں کئی غیر سرکاری و اعلانیہ باتیں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ متوقع ہے کہ چین کے وزیرخارجہ اور بھارت کے درمیان روس یوکرین صورتحال‘ آر آئی سی (روس‘ بھارت اور چین) سہ فریقی کرنسی اور روس پر عالمی پابندیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور شامل ہے۔ بھارت اور چین کی افواج سرحد پر آمنے سامنے کھڑی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان مسلسل بات چیت کے باوجود بھی سرحد کے مسئلے کا کوئی سنجیدہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ بھارت کے چین کی ساتھ سرحد پر ایک لاکھ چالیس ہزار فوجی تعینات ہیں جبکہ بھارت کی سرحد کے ساتھ چین نے ساٹھ سے ستر ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

چین و بھارت کے درمیان تعلقات پرجوش نہیں لیکن یہ وقتی و عمومی نوعیت کے ہیں اور اِن میں عام طور پر پائے جانے والے دو طرفہ تعاون یا تعلقات کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ بظاہر یہ بہت ہی غیر معمولی و غیریقینی صورتحال کا عکاس ہے کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ اپنے ایسے ہم منصب سے بات چیت کر رہا ہو‘ جبکہ دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہوں! (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اظہر پاشا۔ ترجمہ: اَبوالحسن اِمام)