روس یوکرین اُور عالمی اتحاد

روس یوکرین تنازعے کے ایک ماہ بعد امریکی صدر جو بائیڈن نیٹو‘ جی سیون اور یورپی یونین کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جو برسلز میں ہو رہا ہے۔ نیٹو‘ جی سیون اور یورپی یونین کے رہنما اپنے اتحاد کو ظاہر کرنے کے اجلاسوں کا انعقاد کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن ان تینوں اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب کوئی امریکی صدر یورپی یونین کے اجلاس میں بھی شریک ہو گا لیکن صدر جو بائیڈن کا برسلز کا دورہ صرف علامتی نہیں۔ روس یوکرین تنازعے نے نیٹو اتحاد میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ یورپی یونین توانائی کی ضرورت کے لئے روس پر انحصار ختم یا کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے یورپی یونین کو امریکہ سمیت کئی اور اتحادوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ویڈیو لنک کے ذریعے تینوں اجلاسوں میں حصہ لیں گے۔ نیٹو تنظیم میں شامل ممالک کے تیس صدور اور وزرائے اعظم یوکرین کی مزید امداد پر اتفاق کریں گے گزشتہ چند ہفتوں سے پچپیس ملکوں کے تیس ہزار فوجی ناروے میں ’کولڈ ریسپانس‘ فوجی مشقیں کر رہی ہیں۔
 یوکرین کی طرح ناروے کی سرحدیں روس سے ملتی ہے۔ لیکن ناروے نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور اسے نیٹو کے مشترکہ دفاع کی سہولت حاصل ہے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو اتحاد کی ضرورت پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس کے علاؤہ فرانس کے صدر ایمنوئل میخواں نے بھی نیٹو ایک ’ذہنی طور پر مردہ‘ قرار دیا تھا لیکن صدر جو بائیڈن کا برسلز کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جارحانہ روس پر قابو پانے کے لئے نیٹو اتحاد کی افادیت موجود ہے۔ یورپی یونین کے اجلاس میں دفاعی حکمت عملی کے ایک منصوبے کی منظوری دی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت یورپی یونین کے ممبران فوجی لحاظ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ یورپی یونین کی ایک خواہش ہے کہ پانچ ہزار فوجیوں پر مشتمل ریپڈ ریسپانس فورس قائم کی جائے۔ یہ فورس فرانس کے صدر میکراں کی یورپ کی تزویراتی خودمختاری کے نظریے کی عکاس ہے۔ صدر میکراں ایک ایسے خود مختار یورپ کے خیال کے حامی ہیں جو اپنے لئے قابل اعتماد ذرائع سے توانائی اور سیمی کنڈکٹر چپس کی فراہمی کو یقینی بنا سکے لیکن یورپی یونین کے ستائیس ملکوں کے سامنے سب سے مشکل سوال توانائی کے متبادل ذرائع کا حصول ہے۔
 یورپ کا اپنی توانائی کا چالیس فیصد روس سے پوری کرتا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپی یونین کے زبردست اتحاد کے مظاہرے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ جرمنی کے چانسلر اولف شولز نے روس سے گیس اور تیل کی درآمد کو روکنے کے مطالبوں کی کھلے عام مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو یورپ کساد بازاری کی جانب بڑھ جائے گا۔ جرمن چانسلر نے کہا ”ہمارا اصول یہ ہے کہ یورپی ریاستوں کو پابندیوں کا نقصان روسی قیادت سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔“ امریکی صدر جو بائیڈن کی یورپ کو مائع گیس کی فراہمی کی پیشکش پر سب کی نظریں ہیں۔ امریکہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا سے سب سے بڑا ملک ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ روسی سیاستدانوں اور روسی امرأ پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرے گا لیکن یورپی یونین کی طرف سے روس پر مزید پابندیوں کے کم امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر افسر نوید۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)