خطرے کی گھنٹیاں 

پہلا خطرہ: پاکستان کے جاری اخراجات (درآمدات کی خریداری کیلئے درکار غیرملکی کرنسی) اور تجارت (برآمدات) میں فرق ہے یعنی پاکستان کی برآمدات کم لیکن درآمدات کی مالیت زیادہ ہونے کی وجہ سے قرض لینا پڑتا ہے تاکہ درآمدات کی ادائیگیاں بیرونی کرنسی میں کی جا سکیں۔ اِس خسارے پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت ہر سال متوقع سالانہ خسارے کا ہدف مقرر کرتی ہے جو 12.9 ارب ڈالر تھا لیکن مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران یہ خسارہ 12 ارب کو عبور کر چکا ہے۔ جنوری دوہزاربائیس میں پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق 2.6 ارب ڈالر تھا اور اِس طرح ایک مالی سال  میں متوقع خسارہ قریب 20 ارب ڈالر ہے جبکہ مجموعی تجارتی خسارہ 28 ارب ڈالر ہے۔ تجارتی مالی خسارے کا مطلب ’کرنسی پر دباؤ‘ ہوتا ہے اور حکومت کو اِس دباؤ سے نکلنے کے اپنی قومی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا پڑتی ہے اور جب کرنسی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو اِس سے لامحالہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب تجارتی خسارہ زیادہ ہو تو عالمی سطح پر ایسے ملک کو غیرمستحکم منڈی سمجھا جاتا ہے اور ایسے ملک میں تیار ہونے والی اشیا یا اجناس عالمی منڈی میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتیں۔ غیرمعمولی تجارتی خسارے کا مطلب ہے کہ ہماری حکومت کو مزید قرض لینا پڑے گا۔
دوسرا خطرہ: پاکستان کے موجود زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ اگست 2021ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے پاس 20 ارب ڈالر کے ذخائر موجود تھے اور تب سے اِن ذخائر میں کمی ہو رہی ہے جو فی الوقت 14.9 ارب ڈالر ہیں۔ یہ بھی خطرے کی علامت ہے کہ پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر اِس کی صرف 3 ماہ کی درآمدات پورا کر سکتی ہیں۔ تصور کریں کہ پاکستان کے پاس قریب 15 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جن سے 3 ماہ کی درآمدات ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر کا موازنہ بیرونی قرضہ جات سے کریں تو یہ اُن قرضہ جات کے پندرہ فیصد کے برابر ہیں۔ تیسرا خطرہ: پاکستان کا بیرونی قرض ہے۔ پاکستان کی قومی آمدنی کے تناسب سے بیرونی قرض 45 فیصد ہے۔ سری لنکا کی صورتحال پاکستان سے زیادہ خراب ہے جس کا قومی آمدنی کم اور بیرونی قرض زیادہ ہونے کی وجہ سے اب سری لنکا پلاسٹک کارڈ تک درآمد نہیں کر سکتا جو ڈرائیونگ لائسنس کیلئے ضرورت ہوتے ہیں۔
 20 مارچ کے روز سری لنکا نے اِس وجہ سے تعلیمی اداروں کے امتحانات ملتوی کئے کیونکہ ملک کے پاس کاغذ درآمد کرنے کیلئے ڈالر (زرمبادلہ) نہیں رہا اور سکولوں میں امتحانات نہ ہونے کی وجہ سے 45 لاکھ (4.5ملین) طلبا و طالبات متاثر ہوئے ہیں۔ سری لنکا کے پاس اپنی قومی ضرورت کے مطابق بجلی کا پیداواری نظام ہے۔ اس کے باوجود 2 کروڑ 20 لاکھ آبادی والے اِس ملک میں یومیہ ساڑھے سات گھنٹے بجلی کا تعطل رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ملک کے پاس بجلی کی حسب ضرورت پیداواری صلاحیت کا ہونا کافی نہیں ہوتا لیکن اگر اُس کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں‘ اُسے قرض لیکر اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنا پڑ رہا ہے اور اِس کی درآمدات زیادہ لیکن برآمدات کم ہیں تو ایسی صورت میں اُس کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ سری لنکا کے پاس بجلی کے پیداواری پلانٹ تو موجود ہیں لیکن تیل و گیس اور کوئلہ درآمد کرنے کیلئے مالی وسائل (زرمبادلہ) موجود نہیں ہے۔ اِسی قسم کی صورتحال لبنان کو بھی درپیش ہے جس نے فوجیوں کے کھانے سے گوشت ختم کر دیا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)