آسٹریلیا کی ٹیم نے 24 سال کے طویل عرصہ بعد پاکستان کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس سے قبل 99-1998 میں بھی اس نے یہاں 3 ٹیسٹ کی سیریز میں 0-1 سے کامیابی حاصل کی تھی اور اب 24 سال بعد بھی یہی نتیجہ رہا۔فرق صرف یہ ہے کہ گزشتہ سیریز میں راولپنڈی کے میدان پر کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے ایک اننگ اور 99 رنز سے میچ جیتا تھا اور پشاور و کراچی کے ٹیسٹ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئے تھے۔ اس مرتبہ راولپنڈی اور کراچی کے ٹیسٹ ڈرا ہونے کے بعد لاہور میں آسٹریلوی ٹیم 115 رنز سے فاتح رہی اس میں اگرچہ آسٹریلیا آخری میچ میں فاتح رہا مگر پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے بابر اعظم کی قیادت میں مہمان ٹیم کا سخت مقابلہ کیا۔ دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن پاکستانی بیٹسمینوں نے میچ میں زبردست واپسی کی اور ایک موقع پر اپنی ٹیم کو فتح کے قریب لے آئے۔
بابر نے غیر معمولی بیٹنگ کرتے ہوئے 196 رنز بنائے، جو اس سیریز میں دونوں ٹیموں کی جانب سے سب سے بڑی انفرادی اننگ تھی۔پوری سیریز میں پاکستان کی جانب سے 6 انفرادی سنچریاں اسکور کی گئیں جن میں اوپنر امام الحق کی 2 سنچریوں کے علاوہ اظہر علی، عبداللہ شفیق، بابر اعظم اور محمد رضوان کی ایک، ایک سنچری شامل ہے۔ اس کے مقابلے پر آسٹریلیا کی طرف سے صرف 2 انفرادی سنچریاں بنائی گئیں اور یہ دونوں سنچریاں اس کے پاکستانی نژاد اوپنر عثمان خواجہ نے اسکور کیں۔ وہ پوری سیریز میں چھائے رہے اور پلیئر آف دی سیریز قرار دئیے گئے۔عثمان خواجہ پہلی مرتبہ اپنے آبائی ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں 97 رنز، دوسرے میں 160 اور 44 رنز ناٹ آوٹ، اور تیسرے میچ میں 91 اور 104 رنز ناٹ آؤٹ اسکور کیے۔ وہ 2 مرتبہ نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے 5 اننگز کھیل کر 165.33 کی اوسط سے 496 رنز بنائے۔ تاہم وہ صرف 18 رنز کی کمی سے پاکستان کے خلاف کسی بھی آسٹریلوی بیٹسمین کی جانب سے 3ٹیسٹ کی سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانیکا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ یہ ریکارڈ 99-1998 میں مارک ٹیلر نے 513 رنز بناکر قائم کیا تھا۔عثمان خواجہ اب تک ٹیسٹ کیریئر میں 12 سنچریاں اسکور کرچکے ہیں جن میں 3 پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ 16 نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں جن میں 6 پاکستان کے خلاف بنائیں۔ لاہور ٹیسٹ کے دوران وہ پہلی اننگ میں 91 رنز پر آوٹ ہوئے اور دوسری اننگ میں 104 رنز بناکر ناٹ آٹ رہے۔ اس طرح وہ ایک ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری اور نائنٹیز اسکور کرنے والے آسٹریلیا کے 10ویں اور دنیا کے 53ویں کھلاڑی ہیں۔پاکستان کی جانب سے 2 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں واپس آنے والے امام الحق نے راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 157 رنز بنائے۔
یہ ان کے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری تھی جو انہوں نے اپنے 12ویں ٹیسٹ میں اسکور کی۔ پھر دوسری اننگ میں وہ 111 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ اس طرح وہ ایک ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دینے والے 10ویں پاکستانی بلے باز بنے۔امام الحق سے پہلے جن 9 کھلاڑیوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، ان میں ان کے چچا انضمام الحق بھی شامل ہیں، جنہوں نے 06-2005 میں فیصل آباد میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں اسکور کیں۔ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اب تک 72 کھلاڑی 88 مرتبہ یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں‘ 3 کرکٹر‘بھارت کے سنیل گاوسکر، آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ اور ڈیوڈ وارنر یہ کارنامہ 3، 3 مرتبہ، اور 10 مختلف کھلاڑی 2، 2 مرتبہ انجام دے چکے ہیں۔ امام الحق نے سیریز میں مجموعی طور پر 2 سنچریوں اور ایک نصف سنچری کی مدد سے 370 رنز 74رنز کے اوسط سے بنائے۔راولپنڈی کے ٹیسٹ میں ہی امام الحق نے آسٹریلیا کے خلاف پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے عبداللہ شفیق کے ساتھ مل کر پہلی اننگ میں افتتاحی وکٹ کی شراکت میں 105 رنز بنائے۔
پھر دوسری اننگ میں انہی دونوں نے ناٹ آٹ رہتے ہوئے 252 رنز کی شراکت قائم کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے پہلی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت کا 58 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ 65-1964 میں خالد عباداللہ اور وکٹ کیپر عبدالقادر نے کراچی میں 249 رنز بناکر قائم کیا تھا۔امام اور عبداللہ پاکستانی اوپنرز کی پہلی جوڑی ہے جس نے آسٹریلیا کے خلاف کسی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری کی شراکت قائم کی‘ مجموعی طور پر کسی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری شراکت قائم کرنے والی یہ تیسری پاکستانی جوڑی ہے‘ اس سے قبل، عمران فرحت اور توفیق عمر نے 2003 میں جنوبی افریقہ، اور عبداللہ شفیق اور عابد علی گزشتہ دسمبر میں بنگلہ دیش کے خلاف یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔عبداللہ شفیق اور امام الحق کی اس شراکت میں دونوں نے سنچریاں بنائیں اور دونوں ناٹ آٹ رہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں یہ چوتھا موقع تھا جب پاکستان کے دونوں اوپنرز نے ایک ہی اننگ میں سنچریاں اسکور کیں‘ اس سے قبل، عامر سہیل اور اعجاز احمد نے 98-1997 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں، سعید انور اور توفیق عمر نے 2001 میں بنگلہ دیش کے خلاف ملتان میں اور شان مسعود اور عابد علی نے 20-2019 میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ (بشکریہ ڈان: تحریر:مشتاق احمد سبحانی ترجمہ ابوالحسن امام)